پاکستان

مشال قتل کیس کے فیصلے کے خلاف جے یوآئی (ف) کا احتجاج

مظاہرین کا فیصلے کو سپریم کورٹ لے جانے کا عزم کیا، یہ معاملہ یہاں پر ختم نہیں ہوگا، شجاع الملک

خیبر پختونخوا کے علاقے مردان موٹروے انٹرچینج پر جمعیت علمااسلام (ف) کے کارکنوں نے مشال خان قتل کیس کے عدالتی فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مقتول کے خلاف نعرے بازی کی اور فیصلے کو سپریم کورٹ لے جانے کا عزم ظاہر کیا۔

مردان انٹرچینج میں موجود مظاہرین نے مشال خان کے خلاف نعرے بازی کے علاوہ اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں لے کر جائیں گے۔

ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے کارکن کا کہنا تھا کہ وہ یہاں انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے رہائی پانے والے 26 'ہیروز' کے استقبال کے لیے موجود ہیں۔

—فوٹو:سراج الدین

ذرائع کے مطابق ہری پور کی انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے بعد رہائی پانے والے 6 افراد مردان پہنچے جہاں سے 2 افراد سوات چلے گئے جبکہ دیگر افراد ابھی نہیں پہنچے تاہم ایک رہا ہونے والے ایک فرد کا پرجوش استقبال کیا گیا اور انھیں پھول پہنائے گئے۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے صوبائی سیکریٹری مولانا شجاع الملک کا مشال خان قتل کے فیصلے کے حوالے سے کہنا تھا کہ 'یہ معاملہ یہاں پر ختم نہیں ہوگا' جبکہ انھوں نے فیصلے کی حمایت پر حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

جے یو آئی (ف) کے ایک اور صوبائی رہنما نے حکومت کو مخاطب کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت نے عدالت کی جانب سے سزا پانے والوں کو رہا نہیں کیا تو جے یو آئی (ف) احتجاج کرے گی اور پارٹی خاموش نہیں رہے گی۔

قبل ازیں ہری پور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے قتل کیس کے فیصلے میں ایک مجرم کو سزائے موت، 5 مجرموں کو 25 سال قید اور 25 مجرموں کو 3 سال قید جبکہ 26 افراد کو بری کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

مزید پڑھیں:مشال خان قتل کیس: ایک مجرم کو سزائے موت اور 5 مجرموں کو 25 سال قید کی سزا

ہری پور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج فضل سبحان نے کیس کا فیصلہ سنایا تھا جہاں اس موقع پر عدالت کے اطراف میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

یاد رہے کہ 23 سالہ مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو خیبر پختونخوا (کے پی) میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام پر ہجوم نے تشدد کانشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔

مشال کی قتل کی ویڈیو جب سوشل میڈیا پر جاری ہوئی تو پورے ملک میں غم و غصہ پیدا ہوا جس کے بعد پاکستان میں توہین کے قانون کے حوالے سے نئی بحث کا بھی آغاز ہوگیا تھا۔