انتخابی اصلاحات ایکٹ: سینیٹ اور قومی اسمبلی کو فریق بنانے کی درخواست مسترد
سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 میں ترمیم کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کو فریق بنانے کی درخواست مسترد کردی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 میں ترمیم کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی، سماعت کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکیل سلمان اکرم راجا، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے وکیل لطیف کھوسہ اور رکن قومی اسمبلی شیخ رشید کے وکیل فرغ نسیم پیش ہوئے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما راجہ ظفر الحق بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران راجہ ظفر الحق نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف نے اس کیس میں فریق بننے سے انکار کردیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پارٹی ان کا بہتر دفاع کرسکتی ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر نواز شریف نہیں آتے تو یکطرفہ کارروائی کا فیصلہ کریں گے، یہ کیس 2 سے 3 دن چلے گا لہٰذا وہ جب چاہیں اس کیس کا حصہ بن سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 سپریم کورٹ میں چیلنج
سماعت کے دوران قومی اسمبلی کی نمائندگی کے طور پر کامران مرتضیٰ پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت سے کہا کہ سینیٹ انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروانے ہیں اور اس لیے عدالت سے چند دن کی چھٹی چاہیے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دیکھنا ہوگا وفاق کو کیسے فریق بنا سکتے ہیں، پارلیمان کی عزت کرتا ہوں انہیں فریق نہیں بنا سکتے۔
سماعت کے دوران شیخ رشید احمد کے وکیل فرغ نسیم نے دلائل دیئے کہ نواز شریف کو عدالت نے نااہل قرار دیا اور کہا گیا کہ وہ صادق اور امین نہیں۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صادق کا لفظ آپ درمیان میں کہاں سے لے آئے، آئین میں لفظ ایماندار اور امین ہے، صادق کا لفظ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لقب تھا۔
فرغ نسیم نے کہا کہ نواز شریف کی نااہلی کے 17 دن بعد نیا قانون آگیا اور یہ قانون سازی آئین اور عدالتی فیصلے سے مختلف ہے۔
انہوں نے کہا عوام کا بنیادی حق ہے کہ ان کے نمائندے ایماندار ہوں، لہٰذا جسٹس اعجاز الحسن کے پاناما فیصلے پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
نئی قانون کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے اس سوال کا جواب دیتا ہے کہ پارٹی صدر کے بہت اختیارات ہوتے ہیں اور اس کے تحت پارٹی صدر ارکان اسمبلی کو نااہل کروا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ منگوا کر دیکھنا ہوگا کہ کس بنیاد پر قانون کالعدم ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ مستقبل کی پارلیمان کے لیے ہوگا اور اس پر احتیاط سے کام کرنا ہوگا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صرف اخلاقی بنیاد اور بدنیتی پر کوئی قانون کالعدم نہیں ہوسکتا، جب تک قانون پر چلیں گے کوئی غلط کام نہیں ہوسکتا۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا قانون آئینی پابندی کو ختم کرسکتا، اگر انتخابات نہیں لڑ سکتے تو پارٹی صدر ہونے سے کیا ہوگا۔
جس پر فرغ نسیم نے بتایا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت پارٹی سربراہ پارلیمانی سیاست، وزیر اعظم کے انتخاب اور قانون سازی پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور پارلیمانی سیاست میں پارٹی سربراہ کا بڑا کردار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: انتخابی بل 2017 کے خلاف درخواستیں سماعت کیلئے منظور
فرغ نسیم کے دلائل پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو شخص امین اور ایماندار نہیں ہے وہ امین اور ایماندار ارکان کو کنٹرول کرے گا، اس طرح سے تو پارٹی کا سربراہ کنگ میکر ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق آئندہ کے وزیراعظم کا انتخاب بھی پارٹی صدر کرے گا، آپ کے مطابق پارٹی صد کے پاس بہت زیادہ اختیارات ہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ انتخابی اصلاحات ایکٹ آئین کے متصادم ہے، ہمیں یہ بتائیں کہ پارٹی صدر بننا آئین سے متصادم کس طرح سے ہے۔