’عدالت نے اجازت دی تو قصور واقعے کے ملزم کو چوک پر لٹکائیں گے‘
قصور: وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کسی قانون کے تحت اجازت دے تو قصور واقعے میں ملوث شخص کو لاہور یا قصور میں کسی چوک پر سرِ عام پھانسی لگائی جائے گی۔
قصور میں میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ریپ کی شکار بچیوں کے والدین سے نظریں نہیں ملاسکتا تھا، ریپ کی شکار بچیوں کے والدین سے معافی بھی مانگی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے متاثرہ خاندانوں کو بتایا کہ میں اس واقعے کے بعد کتنی تکلیف میں ہوں، آپ کی بچیوں کو تو واپس نہیں لاسکتا، لیکن انہیں انصاف ملے گا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ متاثرین سے گزارش کی کہ جس کسی ذمہ دار نے کو تاہی کی کمیٹی میں جا کر بتائیں کہ کس نے اپنا کام ٹھیک کیا اور کس نے اس میں کوتاہی برتی۔
مزید پڑھیں: زینب قتل کیس کا ’ملزم‘ ڈی این اے ٹیسٹ میں بے قصور ثابت
وزیراعلیٰ پنجاب نے واضح کیا کہ اس واقعے کی تحقیقات میں غفلت سے کام لیا تو اس کے خلاف نوٹس لیتے ہوئے بھر پور کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ قصور میں بچوں سے ریپ کا ملزم گرفت میں آچکا ہے اور اسے قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا دی جائے گی تاکہ دنیا اس کا انجام دیکھ سکے۔
شہباز شریف نے اعلان کیا کہ قصور میں درندگی کا شکار ہونے والی بچیوں کے نام پر اسکولوں کے نام رکھنے کا اعلان بھی کیا۔
وزیرِ اعلیٰ نے بتایا کہ پنجاب فارنسک لیب جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے اور یہ دنیا کے بہترین لیبس میں سے ایک ہے جبکہ جنوبی ایشیا میں اس جیسی کوئی دوسری لیب نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جیکٹ کے دو بٹن زینب کے قاتل کی گرفتاری میں معاون
انہوں نے بتایا کہ اسکالینڈ یارڈ نے بھی اپنے کیسز کو حل کرنے کے لیے انہیں پنجاب فارنسک لیب بھجوایا۔
قصور میں 6 سالہ زینب کا قتل
صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔
جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت اس کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔
بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس: 'فوج کی نگرانی میں جے آئی ٹی بنائی جائے'
اس واقعے میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہل علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی۔
بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔
علاوہ ازیں لاہور ہائی کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور پولیس حکام کو طلب کیا تاہم ایک روز بعد ہی سپریم کورٹ نے زینب قتل کا از خود نوٹس لیا اور لاہور ہائی کورٹ کو کیس کی سماعت سے روک دیا تھا۔
خیال رہے کہ 23 جنوری کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا۔
واضح رہے کہ 24 جنوری کو ملزم عمران کو لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جسے عدالت نے 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
بعد ازاں 25 جنوری کو سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ملزم عمران کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔
اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے اپنے پروگرام میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ زینب قتل کیس میں پکڑا گیا ملزم عمران کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ اس کے 37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ ایک بین الاقوامی گروہ کا کارندہ ہے جس میں مبینہ طور پر پنجاب کے ایک وزیر بھی شامل ہیں۔
اس دعوے کے بعد چیف جسٹس نے نوٹس لیا تھا اور انہیں سپریم کورٹ میں طلب کیا تھا، جہاں ڈاکٹر شاہد مسعود نے عدالت کو ملزم کے 37 بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات جمع کراتے ہوئے ایک پرچی پر ان شخصیات کا نام لکھ کر دیئے تھے۔
26 جنوری کو زینب قتل کیس کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ مرکزی ملزم عمران کا کوئی بینک اکاؤنٹ پاکستانی بینکوں میں موجود نہیں ہے۔