لکھاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔
پاکستان آزمائش کے دور سے گزر رہا ہے۔ اسے ہندوستان اور امریکا کی طرف سے بیک وقت خطرات کا سامنا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ پاکستان میں افغان طالبان کے مبینہ 'محفوظ ٹھکانوں' کے خاتمے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے گا۔
امریکا کی جانب سے اپنی علاقائی خواہشات کی تائید پر ہندوستان پھولے نہیں سما رہا ہے۔ پاک امریکا تنازعے پر خوش اور مقبوضہ کشمیر میں تازہ ترین عوامی بغاوت کو دبانے میں ناکام ہندوستان نے پاکستان پر سیاسی اور عسکری دباؤ بڑھا دیا ہے۔ اس دوران پاکستان کی علاقائی سیاست اتھل پتھل کا شکار ہے اور قوم دو مونہے بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے قیادت سے تقریباً محروم ہے۔
ہندوستان سے ہمارے وجود کو نہایت سنگین خطرہ لاحق ہے۔ ہندوستان کہتا ہے کہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی روزانہ خلاف ورزی پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت کرنے کی 'سزا' دینے کے لیے ہے۔ 'سرجیکل اسٹرائیکس'، 'محدود جنگ'، اور 'کولڈ اسٹارٹ' حملے کی بیان بازیوں کے علاوہ ہندوستانی ایئر چیف نے زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو 'ڈھونڈ کر تباہ' کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جبکہ ہندوستانی آرمی چیف نے پاکستان کو ایک 'نیوکلیئر دھوکے باز' قرار دیتے ہوئے سرحد پار حملے کی تیاری کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح کی غیر ذمہ دارارنہ دھمکیوں کی عالمی طور پر مذمت کرنی چاہیے۔
مزید پڑھیے: ‘بھارتی آرمی چیف کا بیان غیر ذمہ دارانہ ہے‘
پاکستان کو واضح طور پر ہندوستان کو بتا دینا چاہیے کہ کسی بھی قسم کے فوجی ایڈوینچر کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔ پاکستان کو سیکیورٹی کونسل سمیت تمام بڑی قوتوں کو ہندوستان کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی اور عسکری دھمکیوں کے اندر پنہاں خطرات سے آگاہ کرنا چاہیے۔ پاکستان لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب اقوامِ متحدہ کے مبصرین کی مزید مؤثر موجودگی کی تجویز دے سکتا ہے۔ اسلام آباد کو چاہیے کہ وہ واشنگٹن کو ہندوستان کے خطرناک جنگی عزائم کی حوصلہ افزائی کرنے سے بھی خبردار کرے۔
پاکستان کی جانب سے کشمیر یا دیگر مسائل پر یکطرفہ پاکستانی سمجھوتے یا دستبرداری سے ہندوستانی دباؤ کم نہیں ہوگا۔ پاکستان کے اہم ترین مفادات پر کسی بھی سمجھوتے کے علاوہ اگر پاکستان نے اپنی جانب سے کوئی کمزوری دکھائی تو تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہندوستان کی بیان بازیوں اور دباؤ میں اضافہ ہی ہوگا۔
اس کے مقابلے میں طالبان/حقانی نیٹ ورک کے 'محفوظ ٹھکانوں' کے متعلق امریکی دباؤ بھلے ہی گمراہ کن ہے مگر اس کے طویل مدت میں پاکستان پر محدود اسٹریٹجک اثرات ہوں گے۔ امریکا کی مؤثر فورس تیار کرنے کی نئی حکمتِ عملی کے جو بھی نتائج ہوں، جلد یا بدیر امریکا کو افغانستان سے نکلنا ہی ہوگا۔ غیر ملکیوں کی عدم موجودگی، افغانستان کے جغرافیے اور اس کی آبادی کی لسانی قومی و لسانی ترکیب کا مطلب ہے کہ پاکستان کا اس ملک میں اثر رہے گا۔
اس لیے امریکا اور ہندوستان کے دباؤ کا گٹھ جوڑ توڑنے کے لیے پاکستان امریکا کی جانب ہندوستان کی بہ نسبت زیادہ لچک دکھانے کی گنجائش رکھتا ہے۔ نئی دہلی کے مقاصد اسٹریٹجک اور دائمی ہیں؛ امریکا کے افغانستان سے متعلق مطالبے چاہے جتنے بھی گمراہ کن ہوں، اور چاہے وہ جیتے یا ہارے، یہ مطالبے ہمیشہ عارضی نوعیت کے ہی ہوں گے۔
اگر پاکستان کے لیڈروں نے ٹرمپ کی صدارت کی شروعات میں ہی مستعدی اور صراحت کے ساتھ کام لیا ہوتا تو افغانستان میں امریکا کے ساتھ باہمی تعاون پر ایک وسیع مفاہمت پیدا ہوسکتی تھی۔ اب بھی پاکستان کو افغانستان میں پاک امریکا تعاون کے ایک وسیع النظر فریم ورک پر باہمی رضامندی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس فریم ورک میں یہ عناصر شامل ہونے چاہیئں:
— دولتِ اسلامیہ گروہ اور اس کے حلیفوں کے خلاف پاک امریکا مکمل تعاون (جیسا کہ ماضی میں القاعدہ کے خلاف کیا گیا)
— کابل اور افغان طالبان کے درمیان تنازعے کا گفت و شنید سے سیاسی حل
— افغانستان میں تحریکِ طالبان پاکستان، جماعت الاحرار اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے کے لیے امریکا کی سربراہی میں اتحادی افواج کا ایکشن
— پاکستان کی خودمختاری اور افغانستان میں اس کے جائز مفادات کی تعظیم
امریکا اور پاکستان کے درمیان تنازعے کی جڑ، یعنی پاکستان میں افغان طالبان کے مبینہ محفوظ ٹھکانوں پر کھلے اور بے باکانہ انداز میں بات ہونی چاہیے۔ پاکستان کے پاس امریکا کے افغان طالبان، بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے رہنماؤں کو پکڑنے یا مارنے کے مطالبے پر عمل نہ کرنے کی اپنی وجوہات ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ 'محفوظ ٹھکانوں' سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ دراندازوں کی چوکیاں ہیں، ٹریننگ کیمپ ہیں یا صرف ان کی موجودگی ہے جیسے کہ افغان مہاجر کیمپوں میں؟
مزید پڑھیے: اب پاکستان کو ٹرمپ کے امریکا سے ’خلع‘ لے لینی چاہیے
دوسری بات، طالبان رہنماؤں کے قتل سے وہی لوگ ختم ہوجائیں گے جن کے ساتھ امن پر گفت و شنید کی جانی ہے۔ پھر قیادت کے بغیر ہونے والی دراندازی کے ساتھ امن معاہدہ طے نہیں پاسکتا، یہ ہم شام اور لیبیا میں بھی دیکھ چکے ہیں۔
تیسری بات، افغان طالبان رہنماؤں کے خلاف پاکستان کا ایکشن افغان خانہ جنگی کو پاکستانی سرزمین پر لے آئے گا۔ تحریکِ طالبان پاکستان/جماعت الاحرار اور افغان طالبان کے درمیان گٹھ جوڑ پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ کسی بھی صورت میں پاکستان کے ایکشن سے صرف چند طالبان رہنما ہی ختم ہوں گے۔ افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتحال کو زیادہ خطرہ کرپشن، منشیات کی تجارت اور اندرونی جنگ و جدل سے ہے۔
مگر ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی حکام پالیسی کے حوالے سے ایک خلا میں موجود ہیں۔ وزارتِ خارجہ کا حالیہ اعلان کہ افغان طالبان اور حقانی گروپ کے 27 ارکان کو کابل کے 'حوالے' کردیا گیا ہے، اس کے پالیسی مؤقف سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس طرح کے متضاد اقدامات پاکستان کے لیے دو جہاں کا خطرہ پیدا کردیں گے۔ نہ ہی امریکا اس سے راضی ہوگا، بلکہ اس سے تو ہم افغان طالبان کو بھی اپنا دشمن بنا لیں گے۔
اسی طرح اسلام آباد نے بھول پن سے افغان پروپیگنڈے کو اس وقت تسلیم کرلیا جب اس نے این ڈی ایس کے سربراہ اور افغان وزیرِ داخلہ کا استقبال کیا۔ یہ دونوں حکام حالیہ کابل حملوں میں پاکستان کی 'خفیہ معاونت' کی شکایت کرنے آئے تھے، جبکہ ان کے پاس اپنے اس بلند و بانگ دعوے کی حمایت میں ذرہ برابر بھی ثبوت نہیں تھا۔
پاکستان کے لیے امریکا کے ساتھ تنازعے سے پرہیز کا ایک واحد راستہ یہ ہے کہ افغان طالبان کو ایک پرامن سمجھوتے کے لیے مذاکرات پر راضی کیا جائے۔ ٹرمپ کے بیانات کے باوجود امریکی حکام نے مبینہ طور پر یقین دلایا ہے کہ وہ طالبان سے بات چیت چاہتے ہیں۔ ان مذاکرات میں شرکت کرکے طالبان اپنے لیے مذاکراتی فریق کی حیثیت سے ایک جائز سیاسی رتبہ حاصل کرلیں گے۔ اس طرح کی بات چیت ایک سے زیادہ انداز میں کی جاسکتی ہے اور اس مرحلے میں روس، ایران اور ترکی کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان کی ایٹمی صلاحیت، پاکستان کی حفاظت کی ضامن
پاکستان کی بھرپور کوششوں کے باوجود اور اس کی کمزوریوں اور پریشانی کو دیکھتے ہوئے امریکا پاکستان کے خلاف مزید سخت اقدامات کرسکتا ہے جس میں سیاسی و اقتصادی پابندیاں، یکطرفہ ڈرون حملے اور پاکستانی سرزمین پر اسپیشل آپریشنز شامل ہیں۔ پاکستان کو اس طرح کے اقدامات کا ردِعمل دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
امریکا اور ہندوستان کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری، سی پیک اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف دھمکیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان کو چاہیے کہ کسی بھی سمجھوتے کی صورت میں اس کا اسٹریٹجک مقصد افغانستان سے امریکا و نیٹو افواج کا مکمل انخلاء ہونا چاہیے۔
سن زو نے آرٹ آف وار میں لکھا تھا: 'ناقابلِ تسخیر ہونے کا راز اپنے دفاع میں ہے۔' مشرق اور مغرب دونوں ہی جانب پاکستان کے اسٹریٹجک مقاصد دفاعی ہیں۔ پاکستان امریکا یا ہندوستان سے عسکری طور پر بھلے ہی کمزور ہو، مگر اس کی ایٹمی صلاحیت اسے بیرونی دباؤ اور جارحیت سے فیصلہ کن طور پر محفوظ رکھے ہوئے ہے۔
انگلش میں پڑھیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 4 فروری 2018 کو شائع ہوا۔