پاکستان

کوئٹہ سیف سیٹی منصوبہ: دو چینی کمپنیوں کے درمیان تنازع

سیف کوئٹہ پروجیکٹ کا ٹھیکہ خلاف ضابطہ دوسری چینی کمپنی کو تفویض کرکے تکنیکی معیار داؤں پر لگا دیا گیا۔

اسلام آباد: بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کو دہشت گردوں اور اسمگلرز سے محفوظ بنانے کے لیے 3 ارب مالیت کا منصوبہ ‘کوئٹہ سیف سیٹی’ کو حاصل کرنے کے لیے دو چینی کمپنیوں کے مابین جھگڑے کا باعث بن گیا۔

بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری نے پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے ماہرانہ مشورے پر ہواوی کنسورٹیم کو ٹھیکہ تفویض کیا لیکن نئے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو میں گزشتہ ٹھیکہ منسوخ کرکے سب سے کم قیمت لگانے والی چینی کمپنی زیڈ ٹی ای سے کنسورٹیم سائن کرلیا۔

واضح رہے کہ مذکورہ پراجیکٹ کے تحت کوئٹہ کو دہشت گردوں سے بچانے کے لیے 14 سو سیکیورٹی کیمرے، داخلی راستوں پر 3 اسکینرز، 300 کلومیٹر فائبر آپٹک کیبل، 260 پولز لگانے کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس سیکیورٹی کنٹرول روم بنیں گے لیکن گزشتہ 18 مہینوں سے اس پراجیکٹ پر صوبائی بیوروکریسی کے عمل دخل کی وجہ سے کمپنیوں کے مابین کھینچا تانی چل رہی ہے۔

یہ پڑھیں: سی پیک کے تحت پاکستان کو ڈیجیٹل اور محفوظ بنانے کا منصوبہ

سیاسی رہنماؤں ، بیوروکریسی کے مفادات اور کمپنیوں کے مابین جاری پراجیکٹ پر تنازع 2016 سے جاری ہے جبکہ اسی عرصے کے دوران دہشت گردوں نے آپس کی چپقلش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے متعدد خونریز حملے کیے۔

کوئٹہ سیف سیٹی پراجیکٹ کا ٹھیکہ ستمبر 2016 کو جاری ہوا بلوچستان پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹر اتھارٹی (بی پی آر اے) کے قوانین کے مطابق ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں نے حصہ لیا۔

اس میں ایس سی او کی کمپنی زیڈ ٹی ای، نیشنل الیکڑونکس کامپلکس (نیسکوپ)، نیشنل ٹیلی کمیونیکشن کمپنی (این ٹی سی)، نیشنل ریڈیو ٹرانسمیشن کمپنی ہواوی اور آرمی ویلفیئر ٹرسٹ (اے ڈبلیو ٹی) شامل تھیں۔

این ٹی سی اور نیسکوپ مذکورہ ٹھیکے سے دستبردار ہو گئے جبکہ دیگر کمپنیوں میں اے ڈبلیو ٹی تکنیکی بنیادوں پر نااہل قرار پائی دوسری جانب ہواوی کمپنی کے مجموعی اسکورز سب سے زیادہ رہے اور ڈبلیو ٹی ای دوسرے نمبر پر آئی۔

یہ بھی پڑھیں: پاک چین اقتصادی راہداری کا ماسٹر پلان کیا ہے؟

اس ضمن میں خاص طبقہ اپنے منظور نظر کمپنی کو ٹھیکہ دینے کی جستجو میں لگا رہا اور ابھی تک ٹھیکہ تفویض کے معاملے میں نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا۔

بعدِازاں بلوچستان حکومت نے دوچینی کمپنیوں کو دوبارہ مالیاتی بولی جمع کرانے کی ہدات کی اور دوسری مرتبہ بھی ہواوی کنسورٹیم پیسوں اور معیار کے اعتبار سے اول رہی۔

اسی دوران جب معاملہ شدت اختیار کرگیا تو صوبائی حکومت نے بی پی آر اے سے وضاحت طلب کی جس پر ان کا کہنا تھا کہ تکنیکی اور مالی اعبتار سے جو کمپنی سب سے زیادہ اسکور حاصل کرے گی اسی کمپنی کو ٹھیکہ تفویض ہو گا۔

بلوچستان کے چیف سیکریٹری نے سابق وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری کے سامنے دونوں کمپنیوں کی کارکردگی پیش کرتے ہوئے بتایا کہ این آرٹی سی کی ہواوی کمپنی نے بہترین کارکردگی کا زیادہ اسکور حاصل کیا لیکن ٹھیکے کی کل لاگت 2 ارب 96 کروڑ بتائی جبکہ زیڈ ٹی ای چینی کمپنی نے ٹھیکے کی قیمت 2 ارب 28 کروڑ لگائی لیکن کارکردگی اسکور کم ہے۔

مزید پڑھیں: سی پیک کے تحت 3 نئی جامعات کا قیام

بی پی آر اے کی واضح قانونی سفارشات کے بعد سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نے این آر ٹی سی ہواوی کو ٹھیکہ 3 نومبر 2017 کو تفویض کردیا جو تکنیکی بنیادوں پر مضبوط لیکن قدرے مہنگا تھا۔

دوسری جانب بلوچستان کی بیوروکریسی نے ہواوی کو دو ماہ سے لیٹر آف انٹینڈ جاری نہیں کیا۔

اسی دوران جسے ہی وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک التوا پیش کی گئی اور وہ خود اپنے قلمدان سے مستعفیٰ ہوئے صوبائی بیورو کریسی کو موقع مل گیا اور انہوں نے خلاف وزری کرتے ہوئے ایس سی او کی زیڈ ٹی ای کو 26 جنوری کو لیٹر آف انٹینڈ جاری کردیا۔


یہ خبر 05 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی