پاکستان

زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ پشاور میں تعلیمی سرگرمیاں بحال

طلبا اور انتظامیہ کو 6 فروری سے حاضر ہونے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ انسٹیٹیوٹ میں تعلیمی سلسلہ شروع کیا جائے، پرنسپل

پشاور میں یکم دسمبر 2017 کو دہشت گردی کا نشانہ بننے والے زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ (اے ٹی آئی) میں دو ماہ بعد 6 فروری سے تعلیمی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا اور اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔

زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے پرنسپل ذوالفقار علی کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن میں تمام طلبا اور انتظامی افسران کو انسٹیٹیوٹ میں حاضر ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔

زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کا نام تبدیل کرکے ایگریکلچر سروسز اکیڈمی رکھا گیا ہے۔

یاد رہے کہ پشاور کے زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کو یکم دسمبر 2017 کو پیش آنے والے دہشت گرد حملے کے بعد بند کردیا گیا تھا اور تعلیمی سرگرمیاں غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دی گئی تھیں اور طلبا اپنا سامان سمیٹ کر گھروں کو واپس لوٹ گئے تھے۔

پرنسپل ذوالفقار کا کہنا تھا کہ انسٹیٹیوٹ 6 فروری کو کھلے گا اور حملے میں شہید ہونے والوں کے لیے فاتحہ کی جائے گی۔

مزید پڑھیں:پشاور: زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ پر دہشت گردوں کا حملہ، 9 افراد ہلاک

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انسٹیٹیوٹ کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ انھوں نے تین سابق فوجیوں کی خدمات حاصل کرلی ہے اور سیکیورٹی کے لیے طلبا کے فنڈز سے چار شاٹ گن بھی خریدی ہیں لیکن حکام کی جانب سے اس اسلحے کے لیے پرمٹ جاری نہیں کیا جارہا تاہم لائسنس کے حصول کے لیے جلد ہی درخواست کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت سیکیورٹی گارڈز کو جدید خودکار اسلحہ فراہم نہیں کررہی ہے۔

—فوٹو:حسن فرحان

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی وزارت داخلہ کی جانب سے خود کار اسلحہ (اے کے 47) کے لیے اجازت نامہ دینے سے انکار کے بعد اب ہم نے کمشنر پشاور کو درخواست دی ہے جو پولیس ڈپارٹمنٹ کو جاری کریں گے۔

انسٹیٹیوٹ کے عہدیدار نے کہا کہ انسٹیٹیوٹ بہت جلد کھل جائے گا لیکن حکومت اور صوبائی وزارت داخلہ گزشتہ دہشت گردی کی طرح ایک اور واقعے کا انتظار کررہی ہے۔

ان معاملات کے باوجود حکومت کی جانب سے تاحال سی سی ٹی وی کیمرے نصب نہیں کیے گئے اور نہ ہی حفاظتی دیوار کی تعمیر سمیت دیگر کوئی بھی انتظامات کیے گئے ہیں جبکہ 6 سیکیورٹی گارڈز کواسلحہ بھی فراہم نہیں کیا گیا۔

پولیس نے واقعے کے بعد 20 دسمبر کو علاقے کی سیکیورٹی کا جائزہ لیا تھا اور سیکیورٹی کو غیراطمینان بخش قرار دیتے ہوئے بہتری کے لیے کئی سفارشات دی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں:پشاور پھر دہشت گردوں کے نشانے پر

ان سفارشات میں تربیت یافتہ 20 سیکیورتی گارڈز کی تعیناتی، خود کار اسلحہ، پورے انسٹیٹیوٹ میں سی سی ٹی وی کیمرے کی تنصیب اور 13 فٹ اونچی حفاظتی دیوار بنانا شامل تھیں۔

—فوٹو:حسن فرحان

دوسری جانب انسٹیٹیوٹ کی عمارت میں اس وقت بھی دہشت گرد حادثے کے نشانات موجود ہیں۔

ڈی پی او عبدالسلام خالد کی دستخط شدہ سیکیورٹی آڈٹ رپورٹ کے مطابق علاقے میں 7 عمارتیں ہیں اور کئی سرکاری دفاتر ہیں جبکہ انسٹیٹیوٹ میں 400 طلبا داخل ہیں جن میں سے 220 ہوسٹل میں مقیم ہیں اور 200 خاندان رہائشی کالونی میں مقیم ہیں جبکہ 200 کے قریب اسٹاف کے اراکین بھی شامل ہیں۔

انسٹیٹیوٹ کے وائس پرنسپل کمالدین کا کہنا تھا کہ فنڈز کی کمی کے باعث عمارت کی تزئین و آرائش کا کام مکمل نہیں ہوسکا ہے۔

ان کا کہنا تھا انسٹیٹویٹ کی جانب سے سیکیورٹی اور عمارت کی بہتری کے لیے 5 کروڑ کا تخمینہ لگایا گیا تھا اور فنڈز کی سفارش کی گئی تھی تاہم تاحال کوئی فنڈز جاری نہیں ہوئے۔

صوبائی حکومت دومہنیے گزرجانے کے باوجود وعدے کے مطابق مالی ازالہ کرنے میں ناکام ہے۔

یاد رہے کہ پشاور میں زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے ہاسٹل پر ہونے والے مسلح دہشت گردوں کے حملے میں 6 طلبا سمیت 9 افراد جاں بحق اور دیگر 37 زخمی ہوگئے تھے۔

انسٹیٹیوٹ میں حملے کے فوری بعد پاک فوج، فرنٹیئر کورپس (ایف سی) اور پولیس اہلکاروں نے علاقے کا محاصرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا تھا۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے حملے میں زخمی ہونے والوں کی عیادت کے موقع پر انکشاف کیا تھا کہ دہشت گردوں کے ایک ساتھی کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا ہے جس سے تفتیش کی جارہی ہے۔