راجاؤں، مہاراجاؤں اور نوابوں کے عجیب و غریب مشاغل (تیسرا حصہ)
یہ راجاؤں، مہاراجاؤں اور نوابوں کے عجیب و غریب مشاغل کا دوسرا حصہ ہے۔ پہلا اور دوسرا حصہ یہاں پڑھیے۔
دیوان سنگھ مفتون ہندوستان کی صحافت کے حوالے سے ایک بہت بڑا نام تھے۔ اُنہوں نے اپنی کتابوں ’ناقابلِ فراموش‘ اور ’سیف و قلم‘ میں ایسے بہت سارے حقائق بیان کیے ہیں جو والیانِ ریاست، نوابوں اور راجاؤں کے حوالے سے ہوش رُبا تھے۔
اس حوالے سے اُن کی دوسری سوانح حیات سیف و قلم تھی، جس کے ابتدائیے میں جوش ملیح آبادی اُن کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں، ’سیرِ چشم، کوتاہ قامت، بُلند حوصلہ، مہمان نواز، شیر دل، دوست پرور، دشمن کانپتے، سلطانِ شکار، گدا نواز، بدترین اور بہترین دوست۔ جب وہ ’ریاست‘ نکالتے تھے تو ہر میجسٹی کے قلعوں اور ہز ہائینسوں کے ایوانوں میں زلزلے ڈالتے تھے۔ والیانِ ریاست کی نیندیں حرام کردی تھیں، اُن کے قلم سے بڑے بڑے فرماں روا کانپتے تھے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ‘دہلی کا واقعہ ہے، ایک روز شام میں ریاست کے وزیراعظم میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ دیوان سنگھ آگئے۔ انہیں دیکھتے ہی وزیراعظم صاحب کا رنگ فق ہوگیا اور جب گلاس بھر کر میں نے ان کے سامنے رکھا تو انہوں نے دیوان سنگھ کی جانب اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نہیں پیوں گا۔ دیوان سنگھ نے اُن کی طرف دیکھ کر مجھ سے کہا، جوش صاحب! پرائم منسٹر صاحب سے کہہ دیجیے، وہ شوق سے پئیں، ان کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں لکھوں گا۔ یہ والئی ملک نہیں ہیں۔ میں تو فقط والیانِ ملک پر حملہ آور ہوتا ہوں، جس کے معنی یہ ہیں کہ میں انسان کا نہیں، سور کا شکار کھیلتا ہوں۔‘