جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا تو عہدے پر نہیں رہوں گا، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے از خود نوٹس کو اختیارات سے تجاوز کرنے کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ کسی منصوبے کا حصہ نہیں اور اگر جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا تو میں عہدے پر نہیں رہوں گا۔
ہائی کورٹ اور فیڈرل ججز کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ'اگر جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا تو میں اس عہدے پر نہیں رہوں گا'۔
انھوں نے کہا کہ 'عدلیہ کو کچھ مقدمات کی سماعت پر جمہوریت مخالف مہم کا حصہ بننے کا الزام دیا جارہا ہے لیکن جج کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں گے'۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ' عدلیہ کسی منصوبہ بندی کا حصہ نہیں اور ہم کسی کو ناانصافی کرنے نہیں دیں گے'۔
عدلیہ کی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ عدلیہ نے 'ماضی میں چند غلطیاں کی ہیں' اور ادارے کو آگے بڑھنے کے لیے خود احتسابی بھی کرنا ہوگی۔
انصاف کی فراہمی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جج صاحبان کے لیے وسائل کی کمی اور روز مرہ کی پریشانیاں انصاف فراہم کرنے اور عدالتی کاموں میں حائل نہیں ہونی چاہیئں، انصاف وہ ہے جو نظر آئے، انصاف میں کسی کسم کا امتیاز نہیں برتنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے، انصاف فراہم کرنے کے لیے کوئی چیز ہمارے راستے کی رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتیں ریاستوں کا اہم ستون ہوتی ہیں اگر عدالتیں اپنی کار کردگی نہیں دکھائیں گی تو ریاست اپنا توازن کھو بیٹھے گی۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا ملتان میں پرانی عدالتیں بحال کرنے کا حکم
میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ’عوام کو عدالتوں سے شکایتں ہیں، ان کی شکایتیں دور کرنے کی ذمہ داری میں خود لیتا ہوں تاہم دیگر جج صاحبان سے درخواست ہے کہ مجھے اس شرمندگی اور پریشانی سے آپ نے بچانا ہے‘۔
انھوں نے کہا کہ جج صاحبان ہمارے پاس اسٹاف کم ہے، ہمیں گاڑی نہیں ملی، ہمیں کمرہ اچھا نہیں ملا، ہمیں چپڑاسی نہیں ملا یہ چیلنجز ہیں جو ہم دیکھ رہے ہیں لیکن یہ ہمارے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے چاہیں اور لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں بھی حائل نہیں ہونے چاہیے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'میرے سپریم کورٹ کے ایک دوست نے مجھے کہا کہ جب میں جج بنا تو میں اپنی بوڑھی (بیگم) سے لڑنا چھوڑ دیا تاہم میں نے حیرانی سے وجہ پوچھی تو جواب دیا کہ اگر میرے ذہنی طور پر پرامن نہیں ہوں گا تو انصاف کیسے فراہم کرسکتا ہوں'۔
اجلاس میں موجود ججوں کا مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس لیے آپ کو دباؤ سے باہر آنا ہے اور میری طرح آپ کو مشکل نہیں ہونی چاہیے مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے اکثر کی بیویاں بہت اچھی ہیں کیونکہ دباؤ کے زیر اثر آپ اچھے فیصلے نہیں دے سکتے'۔
'ازخود نوٹس پر اختیارات سے تجاوز نہیں کیا'
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ازخود نوٹس بنیادی حقوق پر لیے، کبھی بھی اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جج صاحبان انصاف کے منصب کو اپنی ملازمت سمجھیں گے تو پھر کام نہیں کر سکیں گے لہٰذا ان کے لیے بہتر ہے کہ وہ اس پیشے سے علیحدہ ہوجائیں۔
میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے لیے بے خوف، بے خطر اور بے مصلیحت جج کی ضرورت ہے جو اللہ کی ذات کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: ’چیف جسٹس دیگر اداروں سے قبل عدلیہ میں اصلاحات کریں‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ جج صاحبان کو چھوٹے موٹے کام نہیں دیے گئے بلکہ کہ وائٹ کالر کرائم والے بڑے بڑے مگرمچھوں، جن کو پکڑنے کے لیے کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا تھا، کا احتساب کرنے کا کام سونپا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ نے کہا ہمیں ہدف دے دیں‘۔
میاں ثاقب نثار نے واضح کیا کہ ہدف کو ذہن میں رکھ کر کام نہیں ہوسکتا، ہدف دے کرانصاف دینا مزدوری کے مترادف ہے، اس کے لیے جذبے اور لگن کی ضرورت ہے‘۔
اپنے دورہ چین کی مثال دیتے ہوئے میاں ثاقب نثار نے کہا کہ چین میں اتنی تیزی سے ترقہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا اور چینی چیف جسٹس سے اس کا راز پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے صرف ایک قوم بن کر ترقی حاصل کی ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ وہ چینی دورے میں اجلاس میں شرکت کے لیے گئے تھے جہاں تقریباً 15 ممالک کے چیف جسٹس صاحبان تقریب میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے لیکن وہ واحد چیف جسٹس تھے جنہیں چینی چیف جسٹس نے علیحدہ اپنے چیمبر میں کھانے پر بلایا اور ملاقات کی۔
میاں ثاقب نثار نے بتایا کہ ’اس ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے چین کے چیف جسٹس نے مجھے اپنی ملکی ترقی کا راز بھی بتایا اور ملک کے نظام کے بارے میں بھی آگاہ کیا جبکہ اس دوران انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ ہمارے ساتھ ایک مفاہمت کی یاد داشت پر دستخط بھی کریں گے‘۔