نقطہ نظر

اللہ یار اینڈ دی لیجنڈ آف مارخور: یہ فلم دیکھنا مت بھولیں

فلم رنگ برنگی ہے اور خوبصورت علاقوں میں فلمائی گئی ہے اور اس میں ناظرین کی دلچسپی برقرار رکھنے کا سامان موجود ہے۔

پاکستان میں بننے والی بچوں کی کسی اینیمیٹڈ فلم سے ہمیں کیا کیا توقعات ہوسکتی ہیں؟

یہ کہ فلم اس کے کم عمر ناظرین کے تخیل کو بڑھاوا دے؟ یہ کہ اس کی کہانی بچوں کو متاثر کرے؟ یہ کہ اس کی تصویر کشی کمانڈر سیف گارڈ سے بہتر ہو؟

اللہ یار اینڈ دی لیجنڈ آف مارخور میں ایک غیر متوقع گروہ شمالی پاکستان کے جنگلوں میں متحد ہوجاتا ہے تاکہ دو شکاریوں مانی (علی نور) اور اس کے جھجھکتے ہوئے ساتھی ببلو چاچا (اریب اظہر) کو سیاہ کوہ کے چوٹی پر مارخوروں کے شکار سے روکا جاسکے۔

اس گروپ میں ہمارا کم عمر ہیرو اللہ یار (انعم زیدی)، اس کا پُرجوش مارخور دوست مہرو (نتاشا حمیرا اعجاز)، ایک برفانی تیندوا چکّو (عبدالنبی جمالی) اور ہیرو نامی ایک دل پھینک چکور (اظفر جعفری) شامل ہیں۔

اللہ یار اوپر دی گئی توقعات پر پورا تو اترتا ہے، مگر ابھی بھی کافی چیزوں کی گنجائش موجود ہے۔

اس کی وجوہات یہ ہیں

اللہ یار کے چھوٹے چھوٹے سبق کافی اہم ہیں اور وضاحت کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں

یوں تو اللہ یار شرارتی ہے، مگر وہ کافی حد تک ایک رول ماڈل ہے۔ اس لیے وہ معمول کے مطابق ایسے جملے بولتا ہے جیسے، ’ارادہ ہو تو راستے بن جاتے ہیں۔‘

شاید سب سے اہم پیغام جو وہ دیتا ہے وہ یہ کہ ہمیں اپنے اختلافات دور کرنے چاہیئں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ طرح طرح کے جانور فلم میں اکھٹے ہوتے ہیں، پہلے ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، مگر بعد میں سمجھ جاتے ہیں کہ یہ دوسری نوع اتنی بُری بھی نہیں ہے۔

اللہ یار کا یہ کہنا کہ ’کسی شخص سے اس کے مذہب، قومیت یا رنگ کی بناء پر فرق نہیں رکھنا چاہیے‘۔ یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے کیوں کہ یہ سبق ہمارے ہر گھر میں نہیں پڑھایا جاتا۔ ہمارے بچے جس پُرتشدد اور منقسم دور میں بڑھ رہے ہیں، ایسے دور میں یہ سبق بار بار دہرائے جانے کی ضرورت ہے۔

ان پیغامات کو فلم کی کہانی میں زیادہ نفاست سے گوندھا جاسکتا تھا، مگر شاید یہ ڈائریکٹر کی جانب سے ناظرین کو ان کہاوتوں سے اردو میں واقف کروانے کی ایک سوچی سمجھی کوشش تھی۔ انٹرویوز میں ڈائریکٹر ظہیر خان نے کہا ہے کہ وہ ایک اردو نصابی کمپنی کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اسکول کے نصابوں میں اردو کو دی جانے والی کم اہمیت کے بارے میں بھی ایک ضمنی منظر شامل ہے۔

مگر فلم جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں ایک سخت پیغام نہیں دیتی

یہ تو دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ فلم پاکستان کی جنگلی حیات کے بارے میں احساس جگانے کی ایک کوشش ہے۔

اللہ یار کی مکمل کہانی میں بار بار اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ جانوروں کو مارنے کی صرف ایک قابلِ قبول وجہ خوراک کے لیے ہونی چاہیے (ظاہر ہے کہ سبزی خور مہرو کو اس سے اختلاف ہے) اور یہ کہ کھیل یا ہنر کے اظہار کے لیے جانوروں کو مارنا کوئی اچھی بات نہیں۔ فلم جنگلی حیات کو قومی فخر بھی قرار دیتی ہے اور ایک مقام پر تو اللہ یار کے والد کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی مارخور کو فروخت کرتا ہے، وہ درحقیقت قوم کو فروخت کر دیتا ہے۔

ہاں ان تمام خیالات پر ضرور زور دیا جانا چاہیے، مگر کیا یہ ناظرین کو اتنا متاثر کریں گے کہ وہ اپنے اردگرد موجود جانوروں کے ساتھ بہتر انداز میں پیش آئیں؟

فلم ببلو چاچا کے دلچسپ کردار کی وجہ سے جانوروں کے حقوق کے لیے ایک سخت پیغام دینے کا موقع گنوا بیٹھی ہے۔ یہ چاچا جو نہ چاہتے ہوئے بھی مانی شکاری کے ساتھی ہیں، تشدد کے بارے میں ملے جلے خیالات رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایک جانور کی جان لینا انسانی جان لینے سے کم بُری بات ہے۔ یہ پاکستانی معاشرے کی نہایت درست عکاسی ہے۔

چاچا کے کردار کو فلم میں بتدریج ارتقاء دیتے ہوئے جانوروں کا دوست بنایا جاسکتا تھا، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ [آگے فلم کا کلائمیکس ہے] فلم کے اختتام میں ببلو چاچا مانی کو دھوکہ دیتے ہوئے اللہ یار کی جان بچا لیتے ہیں، مگر وہ یہ جراتمندانہ اقدام اس وقت نہیں اٹھاتے جب مارخور خطرے کا شکار ہوتا ہے [کلائمیکس ختم]۔ یوں یہ فلم حیوانی زندگیوں کے بارے میں ایک فیصلہ کن پیغام دیتے دیتے رک جاتی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ مانی شکاری کا تصور تو درست ہے کہ زندگی زندگی ہوتی ہے، مگر اس کا ارادہ غلط ہے، وہ انسانوں اور جانوروں، دونوں ہی کی زندگیوں کا دشمن ہے۔

شائقین کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے فلم میں دلچسپ تصویر کشی اور مذاقیہ مکالموں کی بہتات ہے

اللہ یار پاکستانی فلم انڈسٹری میں اینیمیشن کے موجودہ معیار سے مطابقت تو رکھتی ہے، مگر اس نے ڈائریکٹر عزیر کے وعدے کے باوجود قدم آگے نہیں بڑھایا۔ اینیمیشن کے اسٹائل میں واضح طور پر ربط کی کمی محسوس ہوئی اور بنیادی مسئلے جیسے کہ ہونٹوں اور مکالموں کا ربط، منظر کے جھٹکے سے تبدیلی اور کٹس، پوری فلم میں دکھائی دیتے ہیں۔

جہاں ماحول کی تفصیل خوش کن تھی، وہاں کچھ جانور کرداروں کی حرکات میں تھوڑی یکسانیت محسوس ہوئی۔ مگر یہ کہنا پڑے گا کہ فلم میں مارخور بالکل درست دکھائی دیے، مضبوط اور ثابت قدم۔ خرگوش پیارے تھے، مگر دوسرے کرداروں کی بہ نسبت وہ حقیقی محسوس نہیں ہوئے بلکہ کٹھ پتلیوں جیسے لگے۔

فلم رنگ برنگی ہے اور پاکستان کے خوبصورت شمالی علاقوں میں فلمائی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس میں تقریباً 90 منٹ کی مختصر مدت تک ناظرین کی دلچسپی برقرار رکھنے کا سامان موجود ہے۔

لوگ جسے یاد رکھیں گے، وہ فلم کے مزاحیہ مناظر ہیں۔ مثلاً ہیرو نامی چکور، جس کے دل پھینک جملے و حرکات مضحکہ خیز ہیں (مگر ان میں سے کئی ہراساں کرنے کو نارمل بنا کر فلم کے کمسن ناظرین پر بُرا اثر ڈال سکتے ہیں)۔

دو مرکزی کرداروں اللہ یار اور مہرو سے جذباتی تعلقات کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس کردار کے ساتھ کافی تعلق محسوس ہوا جو خوش آئند بات ہے۔ اس کے علاوہ پرچی کے ستاروں حریم فاروق اور علی رحمان خان کے ادا کردہ کردار خرگوشوں کا ایک جوڑا بھی بہت مذاقیہ ہے۔

’یہ فلم دیکھنا مت بھولیں‘۔

انگلش میں پڑھیں۔

مہرین حسن

مہرین حسن ڈان امیجز کی اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں، اور فلم، ٹی وی اور تھیٹر میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔