مشتاق یوسفی کی سلیپنگ بیوٹی اور وادئ زیارت
مشتاق یوسفی کی سلیپنگ بیوٹی اور وادئ زیارت
1988ء کا موسمِ گرما تھا۔ مجھے رابطہ انٹرنیشنل نامی ماہنامے نے ایک ایسا عجیب اسائنمنٹ دیا کہ جس میں مجھے پاکستان کے چاروں صوبوں کی خاک چھاننی تھی۔ بلوچستان میں زیارت اور لورالائی اور صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) میں نوشہرہ اور چترال۔ اس کام کے لیے مجھے سندھ سے بلوچستان اور پھر بلوچستان سے براستہ پنجاب صوبہ سرحد تک سفر کرنا تھا، یعنی چاروں صوبے۔
روٹ کچھ یوں بننا تھا کہ پہلے مرحلے میں کراچی سے کوئٹہ، پھر کوئٹہ سے زیارت، زیارت سے لورا لائی، لورالائی سے براستہ فورٹ منرو پنجاب میں داخل ہوکر ڈیرہ غازی خان اور پھر مزید آگے بڑھتے ہوئے پورا پنجاب عبور کرکے راولپنڈی پہنچنا تھا۔ راولپنڈی سے بذریعہ جرنیلی سڑک دریائے سندھ کو عبور کرکے نوشہرہ تک رسائی اور پھر آگے مردان، مالاکنڈ اور دیر سے ہوتے ہوئے چترال۔ یہ ایک خاصا طویل، دشوار مگر انوکھا سفر تھا۔ میں نے اپنے دوست باسط کو بھی اس آوارہ گردی کے لیے آمادہ کیا اور ہم پہلے مرحلے میں کراچی سے کوئٹہ کے لیے نکل پڑے۔
کراچی سے کوئٹہ کے لیے جدید آرام دہ ایئر کنڈیشنڈ بسیں چلنا شروع ہوگئی تھیں جو صبح شام کوئٹہ کے لیے نکلتی تھیں۔ ہم بھی صبح سویرے والی ایک کوچ میں سوار ہوگئے اور ٹھنڈے ٹھار اے سی کے مزے لیتے ہوئے سندھ کی حدود سے نکل کر بلوچستان میں داخل ہوگئے۔ بے آب و گیاہ ویرانوں اور خشک پہاڑوں سے آنکھ مچولی کھیلتی آر سی ڈی ہائی وے پر فراٹے بھرتے ہوئے دوپہر تک خضدار پہنچ گئے۔ مجھے یاد ہے کہ دوپہر کا کھانا ہم نے چمروک ہوٹل میں کھایا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس دن کے 30 سال بعد جب میں پچھلے سال خضدار میں رُکا تو یہی چمروک ہوٹل اسی آن بان سے مسافروں کی خدمت کرتا نظر آیا۔ لفظ ’چمروک‘ کا مطلب کیا ہے؟ یہ تو ہمارے بلوچ دوست ہی بتائیں گے۔