پاکستان

میر ہزار خان بجارانی نے 44 سال سیاست کو دیے

سندھ کے ضلع کندھ کوٹ کے شہر کرم پور میں قیام پاکستان سے قبل پیدا ہونے والے ہزار خان نے 44 سال تک پارلیمانی سیاست کی

یکم فروری 2018 کو اہلیہ کے ساتھ مردہ حالت میں پائے جانے والے 72 سالہ میر ہزار خان بجارانی کی زندگی کے 44 سال پاکستانی پارلیمنٹ اور سیاست میں گزرے۔

میر ہزار خان بجارانی اس وقت میں رکن سندھ اسمبلی اور صوبائی وزیر تھے، جب کہ ان کی اہلیہ فریحہ رزاق میر ماضی میں رکن سندھ اسمبلی رہ چکی ہیں، وہ اس وقت فری لانس صحافی تھیں۔

میر ہزار خان بجارانی صوبہ سندھ کے شمالی ضلع کندھ کوٹ ایٹ کشمور کے شہر کرم پور میں قیام پاکستان سے ایک سال قبل یعنی 1946 میں ایک سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئے۔

میر ہزارخان بجارانی نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالحکومت کراچی کا رخ کیا، جہاں سے انہوں نے نہ صرف گریجوئیشن کی، بلکہ انہوں نے قانون کی تعلیم بھی حاصل کی۔

ہزار خان بجارانی نے نیشنل کالج کراچی سے بی اے کرنے کے بعد سندھ مسلم لا کالج سے ہی ایل ایل بی کی ڈگری لی، جس کے بعد انہوں نے سیاست کی تعلیم حاصل کی۔

ہزار خان بجارانی پاکستان کے ان چند سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں، جنہوں نے اپنا ماسٹر بھی سیاست میں کیا، ساتھ ہی وہ قانون کی تعلیم پڑھنے والے ملک کے چند سیاستدانوں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔

—فوٹو: فریحہ رزاق فیس بک

چار مرتبہ رکن قومی اسمبلی اور تین مرتبہ رکن سندھ اسمبلی رہنے والے میر ہزار خان بجارانی ایک بار سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔

وہ سب سے پہلے 1974 میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، جس کے بعد وہ ایک بار پھر 1977 میں بھی رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔

1988 میں وہ پہلی و آخری بار سینیٹر منتخب ہوئے، جس کے بعد وہ ہمیشہ عوامی ووٹوں سے ہی اسمبلی میں پہنچے۔

وہ 1990 کے بعد مسلسل 2008 تک اپنے حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے، انہوں نے 1997، 2002 اور 2008 کے انتخابات بھی بھاری اکثریت سے جیتے۔

گزشتہ انتخابات یعنی 2013 میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سیٹ پر صوبائی نشست کے لیے انتخاب لڑا اور ہمیشہ کی طرح جیت گئے۔

—فوٹو: فریحہ رزاق فیس بک

میر ہزار خان بجارانی نے جہاں سیاست میں تعلیم حاصل کی، وہیں سیاست انہیں خاندانی ورثے میں بھی ملی، کیوں کہ ان کے دادا خدا بخش شیر محمد بجارانی تقسیم ہند سے قبل ممبئی کونسل کے رکن رہے تھے، یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ کو ممبئی سے جوڑا گیا تھا۔

میر ہزار خان بجارانی کے والد کے ایس سردار نور محمد خان بجارانی بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں داخل ہوئے، اور 1946 سے 1947 تک سندھ اسمبلی کے رکن رہے۔

اپنے دادا اور والد کی طرح جہاں میر ہزار خان بجارانی سیاست میں آئے، وہیں انہوں نے اپنے بچوں کو بھی سیاست میں متعارف کرایا۔

میر ہزار خان بجارانی کے بڑے بیٹے میر شبیر علی بجارانی 2013 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

اس وقت منصوبہ بندی و ترقی کی صوبائی وزارت کا قلمدان سنبھالنے والے میر ہزار خان بجارانی اس سے قبل سندھ کے وزیر تعلیم تھے، مگر انہوں نے اس وقت کے سیکریٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہو کے ساتھ کام کرنے سے معزرت کرلی تھی، جس کے بعد سیکریٹری تعلیم کو تبدیل کیا گیا۔

—فوٹو: فریحہ رزاق فیس بک

سیکریٹری تعلیم کی تبدیلی کے بعد انہوں نے وزیر تعلیم کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں، تاہم سندھ کے وزیر اعلیٰ تبدیل ہونے کے بعد ان کی وزارت بھی تبدیل کردی گئی۔

صوبائی وزیر اور رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے انہوں نے چین، جاپان، برطانیہ، امریکا اور سوویت یونین سمیت متعدد ممالک کے دورے بھی کیے۔

میر ہزار خان بجارانی کے 5 بچے ہیں، جن میں سے ایک بیٹا رکن اسمبلی ہے۔

—فوٹو: فریحہ رزاق فیس بک

میر ہزار خان بجارانی کے ساتھ مردہ حالت میں پائی جانے والی ان کی اہلیہ فریحہ رزاق میر صحافت کے شعبے سے تعلق رکھتی تھیں، انہوں نے متعدد اداروں کے ساتھ کام کیا۔

فریحہ رزاق بھی کراچی میں ایک سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئیں، وہ خود پاکستان پیپلز پارٹی کی خصوصی نشست پر 2002 میں رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئیں اور 2007 تک وہ رکن اسمبلی رہیں۔

سندھ اسمبلی کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق وہ رکن اسمبلی کی مدت کے دوران غیر شادی شدہ تھیں، انہوں نے گریجوئیشن تک تعلیم حاصل کی اور پاکستان کے متعدد صحافتی اداروں کے ساتھ منسلک رہیں۔

مختلف قریبی افراد کے مطابق میر ہزار خان بجارانی اور ان کی اہلیہ فریحہ رزاق کے درمیان بہت ہی اچھے تعلقات تھے، دونوں اپنی پیشہ ور ذمہ داریاں نبھانے کے علاوہ بھی ایک دوسرے کے لیے وقت نکالتے تھے، وہ اپنی سماجی و ذاتی زندگی سے متعلق سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی تفصیلات شیئر کرتے رہتے تھے۔

میر ہزار خان بجارانی صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ اپنے قبیلے کے سردار بھی تھے، اور ان کا اثر و رسوخ سندھ کے علاوہ بلوچستان اور پنجاب کے علاقوں تک تھا۔

چوں کہ ان کا تعلق سندھ کے ایسے ضلع سے تھا، جس کی سرحدیں پنجاب اور بلوچستان سے ملتی ہیں، اس لیے ان کا اثر بھی ان صوبوں کے سندھ کے قریبی علاقوں تک تھا۔

میر ہزار خان بجارانی کا اثر و رسوخ ضلع کندھ کوٹ ایٹ کشمور کے علاوہ جیکب آباد، شکارپور اور گھوٹکی اضلاع تک بھی تھا۔

—فوٹو: فریحہ رزاق فیس بک

یکم فروری کو کراچی کے پوش علاقے ڈیفینس میں میر ہزار خان بجارانی اور ان کی اہلیہ فریحہ رزاق کی لاشیں ملنے پر نہ صرف ان کے اہل خانہ اور برادری کے لوگ بلکہ پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں سمیت تمام تر سیاستدان حیران رہ گئے۔

اگرچہ ابتدائی طور پر یہ چہ مگوئیاں کی جاتی رہیں کہ میر ہزار خان بجارانی نے خودکشی کرکے اپنی اہلیہ کو بھی قتل کردیا ہوگا، تاہم پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں نے ان کی جانب سے خودکشی کرنے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزیر ہرگز ہرگز ایسا نہیں کر سکتے۔

ڈان نیوز کے مطابق یکم فروری کو پولیس کو 15 پر اطلاع موصول ہوئی کہ میر ہزار خان بجارانی کے گھر پر لاشیں موجود ہیں جس کے بعد پولیس فوری طور پر ان کے گھر پہنچی اور دروازہ توڑ کر لاشیں نکالیں جن پر گولیوں کے نشانات تھے۔

واقعہ پیش آنے کے فوری بعد پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی و رہنما میر ہزار خان بجارانی کی رہائش گاہ پر پہنچے، ان کی رہائش گاہ پر پہنچنے والوں میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی، وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال اور صوبائی وزیر منظور وسان سمیت دیگر شامل ہیں۔

میر ہزار خان بجارانی کا شمار سابق آصف علی زرداری کے بااعتماد اور انتہائی قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا، مگر ساتھ ہی وہ بااصول سیاستدان بھی تھے۔

—فوٹو: فریحہ رزاق فیس بک