پانی کا خیال رکھیے، کیونکہ یہ ہماری معیشت کا خیال رکھتا ہے
پانی نے انسانی ترقی اور ارتقاء میں ہمیشہ سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی تمام بڑی تہذیبوں نے پانی ہی کے کنارے جنم لیا اور یہیں پروان چڑھیں۔ دنیا کے تمام بڑے دریاؤں نے اپنے پانی سے انسانیت اور ماحول کی خدمت کی اور تہذیبوں کے ارتقاء میں مدد فراہم کی۔ دنیا میں بہت کم ممالک ایسے ہیں جنہیں قدرت نے دریائے سندھ جیسے بڑے دریاؤں سے نوازا ہے اور ڈیلٹا کی شکل میں ایک علیحدہ تہذیب، معاش اور حیاتیاتی تنوع کے لیے زرخیز مسکن فراہم کیا ہو۔
آج دنیا بھر کی معیشت پانی ہی کا طواف کررہی ہے، اسی لیے آج کل معاشیات کے شعبے میں آب برائے معاشی ترقی یعنی ’واٹر اکانومی‘ جیسی اصطلاح عام ہوتی جارہی ہے۔ واٹر اکانومی کی اصطلاح کا مطلب دراصل معیشت کے تمام شعبوں کی ترقی کے لیے پانی کے وسائل کو استعمال کرنا ہے لیکن اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ ترقی کے لیے دریا کا تمام پانی دریا سے نکال کر استعمال کرلیا جائے۔
انسان نے اپنی نام نہاد ترقی کے نام پر فطری ماحول میں مداخلت کرکے جو تباہی اور بربادی مچائی ہے آج اسی کے طفیل ماحولیاتی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) نامی بلا انسانیت کے درپے ہوچکی ہے اور اب انسانیت کا اپنا وجود بقاء کی لڑائی لڑنے میں مصروف عمل ہے۔ ایسے میں یہ نظریہ تقویت پارہا ہے کہ فطرت سے چھیڑ چھاڑ بند کی جائے اور فطرت کو اس کے راستے پر چلنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔