جھوٹی خبروں سے ہونے والے نقصان اور بدنامی کا ذمہ دار کون؟
اکیسویں صدی میں خبر کا اثر ماضی کی نسبت سب سے زیادہ ہے کیوں کہ اس صدی کا میڈیا سیٹلائیٹ اور سوشل میڈیا ہے۔ امریکہ سے نکلی ایک خبر چند لمحوں میں پاکستانی اسٹاک ایسکچینج کو تباہ کر سکتی ہے اور روس سے نکلی ایک خبر چند سیکنڈز میں امریکہ کا چہرہ بگاڑ سکتی ہے۔
جھوٹی خبر (Fake News) کو 2017 میں امریکہ میں Word of the Year کا نام دیا گیا ہے اور اسے جمہوریت اور آزادی رائے کے لیے سب سے بڑا خطرہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ فیک نیوز چند سالوں میں میڈیا کی دنیا میں سب سے زیادہ بولا جانے والا لفظ بن کر ابھرا ہے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا کو اس خطرے کا سامنا ہے۔ اس میڈیا میں الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا شامل ہیں۔
ان حالات کے پیش نظر انٹرنیشنل فیڈریشن آف لائبریری ایسوسی ایشنز اینڈ انسٹیٹیوشنز کے نام سے ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے تحت عوام کو جھوٹی خبروں کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے تعلیم دی جا رہی ہے۔ غلط خبر کو پرکھنے کے لیے انٹرنیشنل فیڈریشن آف لائبریری ایسوسی ایشنز اینڈ انسٹیٹیوشنز نے دماغی سائنس کے ماہرین کی مدد سے آٹھ اصول شائع کیے ہیں۔ جب بھی کوئی خبر آپ تک پہنچے اس پر یقین کرنے سے پہلے اسے ان آٹھ اصولوں کے مطابق پرکھیں۔
1: جب بھی کوئی خبر آپ تک پہنچے تو اس خبر کے مقصد کو سمجھنے کے لیے اس کے ذرائع کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔
2: جو خبر آپ کو دی جا رہی ہے اس خبر سے ہٹ کر باقی پہلوؤں پر بھی سوچیں تاکہ تمام پہلو اور مکمل کہانی آپ کی سمجھ میں آ سکے۔
3: یہ جاننے کی کوشش کریں کہ خبر لکھنے والا یا سنانے والا کون ہے۔ اور ماضی میں اس کی خبریں سچ تھیں یا جھوٹ پر مبنی تھیں۔
4: یہ جاننے کی کوشش کریں کہ خبر کے علاوہ خبر کے متعلق دیے جانے والے دلائل اور ثبوتوں کو کون سے ذرائع مستند قرار دے رہے ہیں اور کون سے غیر مستند کہہ رہے ہیں۔
5: خبر کے شائع ہونے کی تاریخ نوٹ کریں تاکہ اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ خبر اپڈیٹ اور متعلقہ ہے یا نہیں۔
6: اگر خبر میں مذاق کیا گیا ہے تو جاننے کی کوشش کریں کہ یہ تنقید کے پہلو سے کیا گیا ہے یا اس میں کوئی حقیقت بھی موجود ہے۔
7: خبر پر یقین کرنے سے پہلے اپنی پسند اور ناپسند کو بھی مدنظر رکھیں۔ تاکہ یہ پہلو بھی آپ کے ذہن میں رہے کہ آپ کہیں غلط خبر پر اس لیے تو یقین نہیں کر رہے کیوں کہ یہ آپ کو پسند ہے اور اس میں آپ کا فائدہ ہے۔
8: جس شعبے کے متعلق خبر ہو اس شعبے کی خبروں کے ماہرین سے رائے لی جائے تاکہ تمام ممکنہ دیگر پہلو بھی کھل کر سامنے آ سکیں۔
پوری دنیا میں تمام صحافتی تنظیمیں اور تعلیمی ادارے ان اصولوں کو اپنے نصاب کا حصہ بنا رہی ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جھوٹی خبر نشر کرنے اور پھیلانے سے روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
ایک اینکر نے 24 جنوری 2018 کو ٹی وی پر خبر دی کہ قصور واقعے کا ملزم چائلڈ پورنوگرافی کا سرگرم رکن ہے۔ اس کے پاکستانی اور غیر ملکی کرنسی میں 30 سے زیادہ بینک اکاؤنٹس ہیں۔ یہ سب اکاؤنٹس ملزم خود آپریٹ کرتا ہے اور ان اکاؤنٹس میں پورنوگرافی سے کمائی گئے لاکھوں ڈالرز اور پاؤنڈز بھی موجود ہیں۔
یہ خبر پلک جھپکنے میں انٹرنیشنل میڈیا کا حصہ بنی اور سپریم کورٹ پاکستان نے خبر کا نوٹس لیتے ہوئے اینکر پرسن سے تفصیلات مانگ لیں۔ اینکر صاحب نے ایک سادہ صفحے پر ملزم کا نام اور بینکوں کے نام لکھ کر تفصیلات جمع کروا دیں۔ اسٹیٹ بینک نے تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ ملزم کے نام کوئی بینک اکاونٹ نہیں ہے۔
یہ معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں ہے اور ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس کیس کا فیصلہ کیا آتا ہے۔ لیکن میرے نزدیک یہ اچھا موقع ہے کہ ہم صحافتی احتساب کی طرف توجہ دیں، اور اس کیس کو سامنے رکھتے ہوئے ہر پہلو سے غور کریں کہ اس خبر کے سچ یا جھوٹ ہونے کے کیا کیا نتائج ہو سکتے ہیں اور اس کی ذمہ داری کس کس پر عائد کی جانی چاہیے۔
کم علمی، عدم دلچسپی اور نااہلی کی حالت یہ ہے کہ ملک پاکستان میں سرکاری اور نجی سطح پر اینکر، ڈائریکٹر نیوز، رپورٹر، نیوز کاسٹر بننے کا نہ تو کوئی معیار ہے اور نہ ہی کوئی مخصوص تعلیم ہے۔ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی تعلیمی قابلیت کے شخص کو صحافی مان لیا جاتا ہے اور یہ لوگ ہماری صحافتی تنظیموں کے باعزت ممبر بھی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جھوٹی خبروں کو جانچ پڑتال کے عمل سے گزارے بغیر نشر کر دیا جاتا ہے اور لوگ اس پر یقین بھی کر لیتے ہیں، لیکن اس کیس نے ہمیں میڈیا کی سمت درست کرنے کا موقع دے دیا ہے اور اس کی شروعات سپریم کورٹ کے از خود نوٹس سے ہو گئی ہے۔
اس کیس کو اب منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے. اگر ان کی خبر میں صداقت ہے تو انہیں عزت دی جائے اور اگر ان کی خبر جھوٹ اور افسانوں پر مبنی ہے تو ان کے خلاف مقدمات چلائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پیمرا کے چیئرمین، میڈیا ہاؤسز کے مالکان، سینیئر اینکر پرسنز کو بھی اس کیس کا حصہ بنایا جانا چاہیے.
جب بھی کوئی اینکر پروگرام میں جھوٹ بولتا ہے یا بلیک میل کرتا ہے تو اس پر کوئی جرمانہ نہیں کیا جاتا۔ اصل جرمانہ میڈیا مالکان کو کیا جاتا ہے کیونکہ وہ پیمرا کے لائسنس ہولڈر ہوتے ہیں جبکہ وہی اینکرز کسی اور چینل پر جا کر پروگرام شروع کر دیتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی قانون سازی ہونی چاہیے کہ اینکر پر بھی اس کے کہے گئے الفاظ کی ذمہ داری عائد ہو.
میڈیا مالکان کو ہونے والے جرمانے بھی مضحکہ خیز ہیں۔ میڈیا میں سب سے زیادہ جرمانے کی حد دس لاکھ روپے ہے جو کہ بہت کم ہے۔ میڈیا ہاؤس کم و بیش 200 کروڑ کی سرمایہ کاری کا منصوبہ ہے۔ جو ماہانہ بیسیوں کروڑ روپے کماتے ہیں ان کے لیے دس لاکھ روپے کا جرمانہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
اس کے علاوہ سی ایس ایس کے امتحانات میں میڈیا کی اہمیت کے حوالے سے کورس شامل ہونے چاہیئں۔ تمام سرکاری دفاتر میں انفارمیشن کی اہمیت اور انفارمیشن کی درستگی کے حوالے سے ماہانہ سیمینار منعقد کروائے جائیں۔ طالب علموں کو باور کروایا جائے کہ غلط معلومات اور جھوٹی خبر دینے والا اور پھیلانے والا ایک مجرم ہے۔
آپ اسکول اور کالجز میں میڈیا اسٹڈیز کے نام سے ایک مضمون لازمی قرار دے دیں جہاں طالب علموں میں انفارمیشن کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ انھیں جھوٹی خبر کی نشاندہی کے طریقے کار سکھائے جائیں۔
انہیں بتایا جائے کہ ہم انفارمیشن کے حساس دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ پاکستانی میڈیا خصوصی طور پر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ارتقا کا عمل ہے اور ہمیں تحمل اور صبر کے ساتھ اس عمل میں سے گزرنا ہے۔
بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالم نگار ہیں، جبکہ ورلڈ کالمسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے ممبر بھی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔