دنیا

بل گیٹس زندگی میں سب سے زیادہ کس سے خوفزدہ؟

بل گیٹس کے والد الزائمر کے شکار ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ وہ بھی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوجائیں۔

مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس برسوں دنیا کے امیر ترین شخص رہے (گزشتہ سال یہ اعزاز آمیزون کے بانی جیف بیزوز کے پاس چلا گیا) اور طاقتور ترین افراد میں سے ایک ہیں، مگر وہ زندگی میں سب سے زیادہ کس چیز سے خوفزدہ ہیں؟

تو اس کا جواب ہے کہ ایک بیماری، جس کے شکار ان کے والد ہیں۔

جی ہاں بل گیٹس نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے والد الزائمر کے شکار ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ وہ بھی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوجائیں۔

بل گیٹس کے 92 سالہ والد دماغی تنزلی کے اس مرض کے سنگین اثرات سے گزر رہے ہیں ، جس کا ابھی تک کوئی علاج موجود نہیں۔

مزید پڑھیں: بل گیٹس کا پاکستان کی مالی امداد بڑھانے کا اعلان

62 سالہ بل گیٹس نے الزائمر کے علاج کے لیے نئے فنڈ کی تشکیل کا وعدہ ظاہر کیا ہے جبکہ وہ اس بیماری کے حوالے سے تحقیق کے لیے اب تک دس کروڑ ڈالرز کا عطیہ بھی دے چکے ہیں، جس کی وجہ ان کا یہ خوف ہے کہ ان کا دماغ بھی اس مرض کا شکار نہ ہوجائے۔

امریکی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا ' زیادہ سے زیادہ افراد الزائمر کا شکار ہورہے ہیں اور یہ ایک المناک مرض ہے، مگر میرا ماننا ہے کہ اگر وسائل کا درست استعمال کریں تو اس سے نمٹا جاسکتا ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ خود اس بیماری کا شکار ہونے کے خیال سے خوفزدہ ہیں اور کہتے ہیں کہ 'میں اپنے دماغ کو جس حد تک ممکن ہوسکا، سرگرم رکھنا چاہتا ہوں'۔

بل گیٹس کا کہنا ہے کہ 'میرا کام نئے شعبوں کو سیکھنا، ذہین ترین افراد سے ملنا ہے اور یہ دماغی نکتہ نظر سے ایک مثالی ورزش ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: بل گیٹس کی رواں سال پولیو کے خاتمے کی پیشگوئی

خیال رہے کہ الزائمر ایسا مرض ہے جس میں بتدریج مریض دماغی افعال سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے اور دنیا بھر میں اس کے کروڑوں مریض موجود ہیں۔

بل گیٹس نے جس ٹی وی میزبان کو انٹرویو دیا، اس کے والد کا انتقال بھی الزائمر سے ہوا تھا اور اس حوالے سے مائیکرو سافٹ کے بانی نے کہا ' آپ کے والد بھی اس بیماری سے متاثر تھے، میرے بھی والد ہیں جو اس سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں'۔

ان کے بقول 'اس طرح کے مسائل کو حل کرکے ہی ہم طبی اخراجات اور انسانی المیوں کو کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں'۔

خیال رہے کہ اپنی نوجوانی میں بل گیٹس کا اپنے والد سے تعلق کافی کشیدہ تھا مگر عمر بڑھنے کے ساتھ وہ ان کے رول ماڈل بن گئے، جن کے مشوروں پر وہ انحصار کرتے تھے۔