نقطہ نظر

تہران کا سفر شروع ہوا تو مشہد نگاہوں سے اوجھل ہونے لگا

فارسی کے سحر اور تہران روانگی کے شوق میں مَیں اپنا بیگ اُدھر ہی بھول گیا تھا جہاں اُن خواتین سے اپنی بوگی کا پوچھا تھا۔

روضہ امام رضاؓ سے ضمیر کی آواز کانوں میں گونجی تو یکایک فیصلہ کیا کہ فجر کے وقت گلی میں جایا جائے اور نظارہ کیا جائے مشہد کی گلیوں کا۔

مسافر خانے کی گلی کے پہلو میں بڑی شاہراہ واقع تھی جو دیگر ہر طرف سے آنے والی شاہراہوں کی طرح روضہ امام رضاؓ پہنچ کر مکمل ہوتی ہے۔ صبح صبح زائرین کے قافلے بلند آواز میں درود و سلام پڑھتے ہوئے روضہ امام رضاؓ کی جانب جا رہے تھے۔

سورج طلوع ہونے سے پہلے مشہد کو دیکھنے کا تجربہ یادگار ثابت ہوا۔ روضہ مبارک کو سنہری روشنیوں سے چکاچوند پایا۔ روشنیوں کی کرنیں سونے کے پانی سے لدے گنبد پر گر رہی تھیں۔ منعکس روشنی کے سبب گنبد یوں لگا جیسے اُس کے اندر سے نورانی کرنیں چاروں اَور پھوٹ رہی ہوں۔

روضہ امام رضاؓ —تصویر بشکریہ شٹراسٹاک/Matyas Rehak

لکھاری مشہد میں۔ — فوٹو بشکریہ لکھاری۔

ایرانی فنِ تعمیر اپنی مثال آپ ہے اور جب ایرانی اپنے کسی مقدس مقام کی تعمیر کریں اور فنِ تعمیر اپنے اوجِ کمال پر نہ ہو، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ امام رضاؓ جب یہاں دفن ہوئے تو یہ ایک گاؤں تھا۔ شہادت کے بعد اہل تشیع کے آٹھویں امام کی مناسبت ہی سے یہ عام سی بستی خاص ہوئی اور اس کا نام مشہد، یعنی ’جائے شہادت‘ پڑگیا۔ آج مشہد، تہران کے بعد ایران کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اسی جگہ عباسی خلیفہ ہارون الرشید بھی مدفون ہیں۔ اما رضاؓ کے مزار کا کُل رقبہ 6,443,890 مربع فٹ ہے جس میں صرف مزار کی عمارت کا رقبہ 267,079 مربع فٹ ہے۔ مزار کے اندر میوزیم، لائبریری، قبرستان، عمارت کے وسیع ہال، کانفرنس روم ہیں۔

اس مزار کے انتظامات کے لیے ایک بڑا انتظامی دفتر ہے۔ روضہ امام رضاؓ کے کمپلیکس میں موجود مسجد گوہر شاد رقبے کے لحاظ سے اور دنیا میں نمازیوں کی ادائیگی کے حوالے سے سب سے بڑی مسجد ہے۔

مزار کے ساتھ ایک یونیورسٹی بھی ہے۔ کروڑوں ڈالر سالانہ جو چندہ اکٹھا ہوتا ہے، اس سے شان دار قیام و طعام کا انتظام اور متعدد صنعتیں بھی قائم ہیں۔ امام رضاؓ ٹرسٹ کے تحت 100 سے زائد کارخانے ہیں اور یہ ایران کا ایک بڑا صنعتی ادارہ ہے۔ امام رضاؓ کے مزار کی ملکیت میں زرعی زمینیں بھی ہیں۔ یہ سب کچھ، پلازے اور لاتعداد عمارات اکٹھا ہونے والے چندے سے قائم کی گئی ہیں۔ آمدن روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور اسی طرح بیواؤں، یتیموں، بے سہارا بچوں اور ضرورت مندوں، حاجتوں کی مالی امداد کا بھرپور اور جدید انتظام ہے۔

پڑھیے: ’میں نے انقلابِ ایران دیکھا‘

امام رضاؓ کا مزار جس قدر عالیشان ہے، اسی قدر اس روضہ مبارک کے تحت چلنے والی صنعتیں، اسکول، یونیورسٹی اور لاتعداد اداروں کا انتظام بھی اپنی مثال آپ ہے۔

ٹریفک کچھ زیادہ نہ تھی۔ سیاہ رات کے اندھیرے میں سیاہ چادروں میں ملبوس خواتین اور چادروں میں سے نکلے کانوں سے آگے تک سفید چہرے دیکھ کر ایسے لگا، کسی اور ہی جہان میں ہوں۔ ایرانی انقلاب کے بعد حجاب اس انقلاب کی پوری دنیا میں ایک شناخت بنا۔ مسلم دنیا میں ایرانی انقلاب کے بعد خواتین میں حجاب کا رجحان ہر آئے سال بڑھتا گیا۔ کہتے ہیں انقلابِ ایران کے دوران مغربی لباس پہننے والی خواتین نے سرِ بازار مغربی لباسوں کے اوپر سیاہ چادریں پہن کر مظاہرے کیے اور یوں نئی مذہبی شناخت اختیار کرنے کا اظہار کیا۔ ایران میں انقلاب کے بعد حجاب کو ریاستی سطح پر نافذ کیا گیا اور اس کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں طے کی گئیں۔

مشہد کا علی الصبح نظارہ کرنے کے بعد، واپس مسافر خانے میں آیا تو مسافر خانے کا نگران یہ سمجھا کہ میں روضہ مبارک پر حاضری دے کر آرہا ہوں۔ کوئی بولے فارسی اور اسے میں نہ سنوں۔ کیا شیریں زبان ہے۔

مشہد کا فضائی منظر—تصویر بشکریہ شٹر اسٹاک/Matyas Rehak

نگران نے سلام آغا کے ساتھ میری حاضری کی قبولیت کے لیے خوب دعائیں دیں اور ایک میں جہاں گرد جو گلیوں سے آوارہ گردی کرکے واپس آیا تھا، خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔

ایرانی روٹی شاید دنیا کی طویل ترین روٹیوں میں سرِفہرست ہے۔ صبح صبح مرد و خواتین اپنے کندھوں پر ڈیڑھ دو گز روٹی لٹکائے یوں چل رہے تھے جیسے کپڑے کا تھان اٹھائے ہوں۔ پہلے وقتوں میں ہمارے ہاں گلیوں میں پارچہ فروش اسی طرح کپڑے کے تھان اٹھائے، پارچہ فروشی کرتے تھے۔

ایران میں سب لوگ روٹی بازار سے خریدتے ہیں۔ گھر میں روٹی پکانے کا تصور شاید دیہات میں بھی کم ہے۔ صبح صبح میں نے بھی ایک نان (روٹی) خریدی جو اگلے چار پانچ دن میری بھوک مٹانے کے لیے کافی تھی۔ پیاز، ٹماٹر، لمبی سبز مرچیں اور کچھ انڈے۔ دن میں دو بار اس خوراک پر گزارا میرے لیے کسی عیاشی سے کم نہ تھا۔

مشہد کی ایک بڑی شاہراہ کے کنارے کنارے، اپنے مسافر خانے سے ادھار میں مانگی سائیکل چلاتا ہوا، اب مجھے ایک ایسے مقام پر جانا تھا کہ اگر کسی پنجابی قوم پرست دانشور کو معلوم ہوجاتا تو شاید مجھے لاہور میں واپس داخل ہی نہ ہونے دیتا، یعنی نادر شاہ افشار کا مقبرہ۔

سواری کوئی بھی ہو نعمت ہے اور وہ بھی بدیس میں؟ اور ایسی سواری جس کے اندر ایندھن ڈالنے کی بھی ضرورت نہ ہو اور نہ ہی ٹریفک کے قوانین دیگر سواریوں کی طرح اس پر لاگو ہوتے ہوں۔ مگر سائیکل چلاتے ہوئے مجھے اپنا زاویہ بنانے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔

ہمارے ہاں ٹریفک بائیں ہاتھ چلتی ہے اور ایران میں دائیں ہاتھ۔ ایران کے اس حکمران اور سپہ سالار کا مقبرہ آیت اللہ بہجت اسٹریٹ اور شیرازی ایونیو کے نکڑ پر واقع ہے۔ پیڈل مارتے مارتے جب میں مقبرے پر پہنچا تو میری سانسیں پھول چکی تھیں۔ مگر تاریخ کی تلاش میں، مَیں خوشی سے پھولے نہیں سمارہا تھا۔ سائیکل روکی تو سامنے ایک سرسبز باغ تھا۔ ایرانی پارک اور باغات بنانے میں یکتائے زمانہ ہیں۔

پڑھیے: ایران کے دارالحکومت کو آپ کیسا پائیں گے؟

اپنے مسافر خانے سے یہاں تک تقریباً سوا میل کا سفر تھا جو میں نے تیز رفتاری سے چند منٹوں میں طے کیا۔ نادر شاہ افشار نے اپنی زندگی میں ہی اپنا مقبرہ تعمیر کروا لیا تھا۔ موجودہ جدید مقبرے کی تعمیرِ نو 1957ء میں شروع ہوئی اور 1962ء میں یہ مقبرہ مکمل ہوا، جہاں اب میں کھڑا تھا۔

باغ کے اندر ایک چبوترے پر گھوڑے پر سوار حملہ آور ہوتا ایک جنگجو حکمران کا مجسمہ ایستادہ تھا۔ اُس کے پیچھے اُس کے جرنیل دشمن کو للکارتے ہوئے۔ نادر شاہ افشار۔ یکایک وہ ساری تاریخ میرے دماغ میں گھوم گئی جو اس حملہ آور کے حوالے سے میں نے پڑھ رکھی تھی، جس نے قتل عام کرکے دہلی میں عملاً خون کی ندیاں بہا ڈالیں اور اسی طرح لاہور میں بھی دردناک قتل عام کیا۔ میرے ذہن میں بلھے شاہ کے اشعار گونج اٹھے۔

ورکھلا حشر عذاب دا

بْرا حال ہویا پنجاب دا

ڈر ہاوئیے دوزخ ماریا

نادر شاہ افشار، نادر قلی بیگ یا طہماسپ قلی خان، ایک نہایت غریب، ترک النسل، خانہ بدوش قزلباش قبیلے میں پیدا ہوا۔ 13 سال کی عمر میں اس کے والد کا انتقال ہوا تو اس ترک بچے نے اپنا اور اپنی والدہ کی گزر بسر کا انتظام جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر شروع کیا۔ وہ طویل محنت اور بلا کی جرأت کے ساتھ سپہ سالاری کرتے ہوئے ایران کا شاہِ فارس کہلانے میں کامیاب ہوا۔ ایرانی تاریخ کا طاقتور ترین حکمران جس نے شکست خوردہ ایران اور ایرانیوں کو فتوحات کرکے ایران، ایرانی قوم اور اپنی دھاک اردگرد کی دنیا تک ہی نہیں بلکہ یورپ تک بیٹھا دی۔ اسے ایرانیوں کا نپولین بھی کہا جاتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ جس کی چارسو دھاک تھی، اس کے ہاتھوں جارجیا، آذر بائیجان، آرمینیا، شمالی قفقاز کے علاقے اور عراق میں شکست پر مجبور ہوئے۔

نادر شاہ کی پینٹنگ۔

طہماسپ قلی خان شاہِ ایران نے ازبکستان، ترکمانستان، افغانستان، اومان، بحرین اور ہندوستان کو شکست دے کر ایرانیوں کو ایک بار پھر ایک بافخر قوم میں بدل دیا۔

ہندوستان میں مغل سلطنت کے حتمی زوال کا آغاز درحقیقت اسی حملہ آور کے ہاتھوں ہوا۔ جنگِ کرنال 24 فروری 1739ء کو ہوئی۔ اس کے مقابل مغل حکمران محمد شاہ تھا جس کے پاس 3 لاکھ سپاہی، 2 ہزار ہاتھی اور 3 ہزار توپیں تھیں جبکہ نادر شاہ کی کُل فوج 50 ہزار پیادوں اور چند توپوں پر مشتمل تھی۔ مغلیہ سلطنت کرنال کے میدانِ جنگ میں صرف 3 گھنٹوں میں شکست فاش سے دوچار ہوگئی۔

ایرانی حملہ آور نادر شاہ کے سامنے مغل بادشاہ محمد شاہ نے ہتھیار پھینکے اور اس کو دہلی جانے کی اجازت دے دی۔ دہلی پہنچتے ہی نادر شاہ کے سپاہیوں پر اہل دہلی نے کچھ حملے کیے تو نادر شاہ کے جبر نے جو دہلی کا حال کیا، وہ تاریخ کا خونیں باب ہے۔ ایرانی حملہ آور نے دہلی کو لوٹنے اور اہلِ شہر کے قتل عام کا حکم صادر کیا اور یوں 30 ہزار ہندوستانی اس قتل عام کی نذر ہوئے۔ جبکہ اس سارے جنگ و جدل میں صرف 1100 ایرانی ہلاک ہوئے۔

مغل بادشاہ محمد شاہ کو بے تحاشا جزیہ (ٹیکس) اور دریائے سندھ کے اردگرد وسیع خطہ نادر شاہ کے حوالے کرنا پڑا۔ یہ ’ایرانی نپولین‘ دنیا کا سب سے بڑا اور معروفِ زمانہ ہیرا کوہِ نور لوٹ کر اپنے ساتھ ایران لے گیا۔ بعد میں پنجاب کا مہاراجہ رنجیت سنگھ 1833ء میں شاہ شجاع درانی سے یہ نایاب ہیرا واپس لینے میں کامیاب ہوا اور اب یہ ہیرا برطانوی تاج میں جڑا ہوا ہے۔

جنگ کرنال میں مغلیہ سلطنت کی عسکری اور ریاستی طاقت بے نقاب ہوئی اور اسی جنگ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو مغلیہ سلطنت کی کمزوریوں سے آخری آگاہی دی جس کے بعد انہوں نے ہندوستان میں نوآبادیاتی نظام قائم کرنے کے لیے تیز رفتاری اختیار کی۔

نادر شاہ ایرانی تاریخ کا فخر تو ہے، مگر ایک جابر اور سفاک فاتح کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ پنجاب میں ظلم کے کسی بھی نظام کے حوالے سے ایک معروف کہاوت ہے، ’نادر شاہی‘ جو اب بھی ٹھیٹ پنجابی میں کثرت سے استعمال کی جاتی ہے۔ اپنے اسی جبر کے خوف کے تحت نادر شاہ اپنے ہی سپہ سالاروں کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔

نادر شاہ کا مقبرہ —تصویر بشکریہ ایران ٹؤرزم سینٹر

مقبرہ، باغ اور وہاں موجود عجائب گھر میں گھومتے ایک دم مجھے یوں لگا کہ کوئی پنجابی میں مجھ سے کہہ رہا ہے، ’توں ایتھے کیہہ کرن آیا ایں؟‘ (تم یہاں کیا کرنے آئے ہو؟) اوہ! میرے دل نے جواب دیا، ’جہاں گردی۔‘

اب مجھے واپس اپنے مسافر خانے جانا تھا اور شام کے لیے مجھے راہِ آہن (ٹرین) کی ٹکٹ خریدنی تھی۔ تیز پیڈل مارتا مسافر خانے پہنچا، سائیکل کھڑی کی اور راستہ معلوم کرکے ایستگاہِ راہِ آہن مشہد (مشہد ریلوے اسٹیشن) جا پہنچا اور تہران کے لیے ٹکٹ لی۔

ریلوے اسٹیشن کی عمارت کے باہر اور اندر ہرطرف امام خمینی کی آسمان کو چھوتی تصاویر اور نیون سائن لگے تھے۔ ایسے لگا کہ ہر طرف امام خمینی، دیگر رہنماؤں اور شہدائے انقلاب اور شہدائے جنگ ایران و عراق کی تصویروں کی نمائش لگی ہے، شہر کی ہر گلی، شاہراہ اور ہر عمارت کی دیواروں پر۔

شام کو دوبارہ ٹرین پر سواری کے لیے آیا تو پلیٹ فارم پر مسافروں کا ہجوم تھا۔ ہجوم کے ایک غول سے اپنی بوگی کا اتا پتا معلوم کیا۔ اردو میں تلاش کی گئی، فارسی پنجابی لہجے میں بولنے کی میری کوشش دیگر مسافروں کی جہاں سمجھ سے باہر تھی، وہیں اُن کے لیے تفریح کا سبب بھی بنی۔ عورتوں کے ایک غول نے بڑھ کر میری رہنمائی کی۔ فارسی ویسے ہی ایک ناقابلِ بیان حد تک شیریں زباں ہے، اور جب کوئی خاتون فارسی بولے تو وہ کس قدر شیریں ہوگی؟

فارسی کے اس سحر میں، مَیں اپنا بیگ اٹھائے بغیر ہی تیز قدموں سے اپنی بوگی کی طرف روانہ ہوا۔ ٹرین نے سیٹی بجا دی تھی۔ میرے قدم مزید تیز ہوئے، تبھی مجھے اپنے پیچھے خواتین کا ایک جلوس آتا محسوس ہوا جو فارسی میں مجھ سے مخاطب تھا، ’حاجی آغا، وایسید۔ حاجی آغا۔ حاجی آغا، وایسید۔‘ (جنابِ عالی رکو، جنابِ عالی رکو۔)

فارسی کے سحر اور تہران روانگی کے شوق میں مَیں اپنا بیگ اُدھر ہی بھول گیا تھا جہاں اُن خواتین سے اپنی بوگی کا پوچھا تھا۔

خواتین نے بیگ میرے ہاتھوں میں پکڑایا۔ جہاں سامان ملنے کی خوشی تھی، وہیں یہ سوچ کر بدن میں سنسنی پھیل گئی کہ ابھی تو سفر شروع ہوا ہے۔

بوگی کے اندر مخلوط نظام تھا۔ ہم ایک کیبن میں تھے۔ اس کیبن میں ایک جوڑا اور اس کے دو بچے اور ایک نوجوان لڑکی تہران جانے کے لیے سوار ہوئے۔ ٹرین آہستہ آہستہ رینگنا شروع ہوئی تو ڈبے میں ایک خاتون نے بلند آواز میں سفر کے لیے قرآنی دعائیں پڑھنا شروع کردیں۔

مشہد جو دیکھا، وہ اب نگاہوں سے اوجھل ہورہا تھا۔ امام رضاؓ کے مزار کا سنہرا گنبد دھیرے دھیرے دور ہوتا گیا۔ دن ڈھلنے لگا اور تہران کا سفر شروع ہوا۔

فرخ سہیل گوئندی

فرخ سہیل گوئندی، معروف کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ قومی، علاقائی اور عالمی سیاست ان کے موضوعات میں سرفہرست ہیں۔ پچاس سے زائد ممالک کی سیاحت ان کی مشاہداتی صلاحیت کا سبب ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: FSGoindi@

یوٹیوب چینل سبسکرائیب کریں: Farrukh Sohail Goindi

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔