دنیا

طالبان سے مذاکرات کی گنجائش نہیں رہی، ڈونلڈ ٹرمپ

مذاکرات کے لیے وقت آئے گا لیکن وہ وقت بہت دور ہے، وہ لوگ معصوم شہریوں کو قتل کررہے ہیں، امریکی صدر

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں یکے بعد دیگر متعدد بڑے حملوں کے بعد امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے واشنگٹن کی حکمت عملی پر سوالات اٹھاتے ہوئے ان کے ساتھ مذاکرات کے امکان کو مسترد کردیا۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ‘میرا خیال ہے کہ ہم اس وقت مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں اس لیے طالبان سے مذاکرات نہیں چاہتے، وہ لوگ معصوم شہریوں کو قتل کررہے ہیں’۔

یہ پڑھیں: امریکا نے 6 طالبان رہنما عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کردیئے

ان کا کہنا تھا کہ ‘مذاکرات کے لیے وقت آئے گا لیکن وہ وقت بہت دور ہے’۔

واضح رہے کہ 29 جنوری کو کابل فوجی اکیڈمی مارشل فہیم ڈیفنس یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے میں افغان سیکیورٹی فورسز کے 11 اہلکار ہلاک اور 16 زخمی ہوگئے تھے۔

اس سے قبل کابل میں ہی ریڈ زون میں ایمبولینس کے ذریعے ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں 95 سے زائد افراد جاں بحق اور 158 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

یاد رہے کہ رواں ماہ 21 جنوری کو کابل میں واقع انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں فوجی لباس میں ملبوس دہشت گردوں کے حملے میں 30 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کابل کے ریڈ زون میں ایمبولینس دھماکا،95 افراد جاں بحق

علاوہ ازیں اے ایف پی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ کابل میں افغان فورسز اور امریکی اہلکاروں پر طالبان اور داعش کے تازہ 3 حملوں سے امریکی اور افغان انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی ہے جس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘افغانستان کے خفیہ اداروں اور وزارت داخلہ کی سطح پر اصلاحات کی اشد ضرورت ہے’۔

دوسری جانب طالبان اور داعش کے کامیاب حملوں کے بعد امریکی حکمت عملی اور افغان سیکیورٹی فورسز کی کارکردگی پر عوامی سطح پر تحفظات میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ ان حملوں پر عوامی سطح پر سخت غم و غصہ بھی پایا جاتا ہے۔

افغان خفیہ ایجنسی کے سربراہ محمد معصوم نے دفاعی موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ‘دہشت گرد کارروائیوں کا رخ بدل رہے ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز سیکیورٹی ناکامی نہیں ہے، ہم بعض حملوں کو روکنے میں ناکام ہوئے لیکن متعدد حملوں کو روکنا مشکل ہے’۔

واشنگٹن میں ولسن سینٹر کے رکن مائیکل کینگل مین کا کہنا تھا کہ طالبان اور داعش عسکری بنیادوں پر مشترکہ حملے کررہے ہیں جبکہ نظریاتی سطح پر وہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور دونوں کا مل کر حملہ کرنا دراصل تباہی مچا کر خوفزدہ کرنا اور حکومت پر عوامی اعتماد کو ناکارہ بنانا ہے۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا تمام ’اقوام‘ سے طالبان کے خلاف جنگ کا مطالبہ

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے سینئر تجزیہ کار بورہان اوسام کا کہنا تھا کہ ‘میدان جنگ میں زیادہ سے زیادہ دباؤ پیدا کرکے طالبان دوبارہ ان علاقوں میں اپنا اثرورسوخ قائم کرکے امریکی اور افغان موقف کی کھل کر مخالفت کرنا چاہتے ہیں، جہاں سے وہ بے دخل کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ‘طالبان کے کامیاب حملوں سے عوامی سطح پر حکومت کی قابلیت پر شک و شبہات جنم لیں گے’۔

دوسری جانب بعض افغان حکام کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی اقدامات کم ہیں تاہم کابل میں داخل ہونے کے ہزاروں راستے ہیں اور افغان پولیس میں اتنی اہلیت نہیں کہ تمام راستوں پر سیکیورٹی فراہم کر سکیں۔