پاکستان

مخدوم علی کا آرٹیکل 62 ون پر عدالت عظمیٰ کے معاون بنے سے انکار

کسی بھی متنازع موضوع کاحصہ نہیں ہونا چاہتا اورمعاونت کےحوالے سےنوٹس کو خارج کردیاجائے، سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط کا متن

اسلام آباد: سینئر قونصلر اور سابق اٹارنی جنرل مخدوم علی خان نے عدالت عظمیٰ سے آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کی تشریح (تاحیات نااہلی یا نہیں) کے معاملے پر عدالتی تعاون سے معذرت کرلی۔

واضح رہے چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ 30 جنوری بروز (منگل) کو آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے خلاف سماعت کرے گا جس میں تاحیات نااہلی یا مدتی نااہلی جیسے امور زیر غور آئیں گے۔

یہ پڑھیں: آرٹیکل 62 ون ایف کے ذریعے ہمیشہ کی نا اہلی پر سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی

مذکورہ آرٹیکل کے تحت پانچ رکنی بینچ نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پاناما لیکس کیس میں جرم ثابت ہونے پر نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کی نسشت سے نااہل قراردیا تھا۔

اس حوالے سے تشکیل دیئے گئے لارجر بینچ میں جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عظمت سعید، جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما گیٹ کیس: شریف خاندان کے وکلاء پھر تبدیل

قانون دان مخدوم علی خان نے مقدمے سے علیحدگی کے لیے سپریم کورٹ کو خط میں لکھا کہ ’میں کسی بھی متنازع موضوع کا حصہ نہیں بنانا چاہتا اور مودبانہ گزارش ہے کہ معاونت کے حوالے سے نوٹس کو خارج کردیا جائے‘۔

سینئر قونصلر نے خط میں تحریر کیا کہ ’مذکورہ مسئلہ آئینی ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن وہ اس معاملے پر غیر جانبدار ہی رہنا پسند کریں گے‘۔

خیال رہے کہ مخدوم علی خان نے پاناما پیپرز کیس میں نواز شریف کے وکیل بھی رہ چکے تھے۔

سپریم کورٹ میں جعلی ڈگری پر تاحیات نا اہل ہونے والوں کی جانب سے درخواست دائر کی گئیں تھی جس میں کہا گیا تھا کہ نااہلی کی مدت کا تعین بھی شامل ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس کیس: ’فیصلہ کمیشن نہیں سپریم کورٹ کرے‘

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس بحث کا آغاز ہوگیا کہ کیا سابق وزیراعظم تاحیات نااہل ہوگئے یا کچھ عرصے بعد وہ پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے دوبارہ سیاسی برادری کا حصہ بن سکتے ہیں۔

سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اسی نوعیت کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کی بنیاد پر کسی کو عمر بھر کے لیے انتخابات کا حصہ بننے سے نااہل کیسے کیا جاسکتا ہے؟


یہ خبر 28 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی