مشال قتل کیس: اے ٹی سی نے فیصلہ محفوظ کرلیا
ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے مشال خان قتل کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا جو 7 فروری کو جاری کیاجائے گا۔
اے ٹی سی جج فضل سبحان خان نے ہری پور سینٹرل جیل میں مقدمے کی سماعت کی اور استغاثہ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
یاد رہے کہ 23 سالہ مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو خیبر پختونخوا (کے پی) میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام پر ہجوم نے تشدد کانشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔
مشال کی قتل کی ویڈیو جب سوشل میڈیا پر جاری ہوئی تو پورے ملک میں غم و غصہ پیدا ہوا جس کے بعد پاکستان میں توہین کے قانون کے حوالے سے نئی بحث کا بھی آغاز ہوگیا تھا۔
پشاور ہائی کورٹ نے مشال خان کے والد کی جانب سے درخواست پر مقدمے کو مردان سے اے ٹی سی ایبٹ آباد منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
اے ٹی سی نے مقدمے کی سماعت کا آغاز ستمبر میں کیا تھا جبکہ یونیورسٹی کے طلبا اور اسٹاف کے اراکین سمیت گرفتار 57 مشتبہ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی اور گرفتار ملزمان کی ضمانت کی درخواست بھی مسترد کی گئی تھی۔
مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کے سامنے 50 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے اور وکلا کی جانب سے ویڈیو ریکارڈ بھی پیش کیا گیا جس میں گرفتار ملزمان کو مشال خان پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔
مشال خان کے والد قیوم خان، ان کے دوست اور اساتذہ نے بھی اے ٹی سی کے سامنے اپنے بیانات ریکارڈ کروائے تھے۔
اے ٹی سی نے پانچ ماہ اور 10 دن کی سماعت کے بعد مقدمے کی کارروائی مکمل کی اور فیصلہ محفوظ کرلیا اور 7 فروری کو فیصلہ سنایا جائے گا۔
یاد رہے کہ مشعال خان قتل کیس کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ایس ایف کے صدر صابر مایار اور یونیورسٹی ملازم نے واقعے سے ایک ماہ قبل مشعال کو قتل کرنے کی بات کی تھی، مخصوص سیاسی گروہ کو مشعال کی سرگرمیوں سے خطرہ تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مشعال یونیورسٹی میں بے ضابطگيوں کے خلاف کھل کربولتا تھا جبکہ مشعال اور اس کے ساتھیوں کے خلاف توہین رسالت یا مذہب کے کوئی ثبوت موجود نہیں ملے۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مخصوص گروپ نے توہین رسالت کے نام پر لوگوں کو مشعال کے خلاف اکسایا تھا۔
اس میں بتایا گیا کہ تشدد اور فائرنگ کے بعد مشعال سے آخری بار ہاسٹل وارڈن کی بات ہوئی تھی، مشعال نے کہا میں مسلمان ہوں، کلمہ پڑھا اور ہسپتال پہنچانے کی التجا کی۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ یونیورسٹی میں رجسٹرار سے لے کر سیکیورٹی افسر تک تمام عہدوں پرنااہل سفارشی افراد تعینات ہیں اور سیاسی بنیادوں پر نا اہل افراد کی بھرتی سے یونیورسٹی کا نظام درہم برہم ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یونیورسٹی میں منشیات اور اسلحہ کا استعمال، طالبات کا استحصال عام ہے جبکہ یونیورسٹی کے بیشترملازمین کا مجرمانہ ریکارڈ بھی موجود ہے اور ان کی چھان بین ہونی جانی چاہیے۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں واقعے کے دوران پولیس کردار پر بھی سوالات اٹھائے تھے، جس میں پوچھا گیا ہے کہ پولیس نے بروقت کارروائی کیوں نہیں کی جبکہ غفلت کے مرتکب افسران اور اہلکاروں کی نشاندہی کرکے کارروائی کی سفارش بھی کی گئی تھی۔