اے دل تجھے قسم ہے، ہمت نہ ہاریو
میدانِ جنگ میں صرف سامانِ حرب کے ساتھ لڑنے والے ہی جنگجو نہیں ہوتے۔ وہ دل آور جو اپنا آپ مرہم لگانے، دوسروں کے زخم سینے، انہیں لڑنے کا حوصلہ اور امن کی امید دینے میں خود کو جھونک دیتے ہیں، وہ بھی بڑی خدمت کرتے ہیں۔ وہ بھی جنگجوؤں سے کم نہیں ہوتے۔ ان راہوں کے مسافر اہلیانِ دل کو سلام، ان دکھوں کو قبولنے والے حوصلوں کو سلام۔
یہ شروع کی ملاقاتوں کی بات ہے، جب میں اپنے گرو کے اس قدر نزدیک نہیں تھا۔ بس اُنہیں دیکھنے، اُنہیں سننے جاتا تھا۔ ان کی باتوں اور اعمال کی خود سے توجیہات بناتا اور دل ہی دل میں خوش ہوتا تھا کہ میرے ہاتھ ایسی صحبت لگ گئی ہے جو مجھے کئی نئی دنیاؤں کی سیر کرائے گی۔
یہ بھی سردیوں کا واقعہ ہے، وہ میرے سامنے ریڈنگ چیئر پر جھول رہے تھے۔ بلا کی خاموشی تھی، اتنی کہ چمنی میں جلتی لکڑیوں کی سِسکیاں صاف سنائی دے رہی تھیں اور ساتھ یہ سبق دے رہی تھیں کہ کسی کو روشنی دینے اور سردی سے منجمد ہونے سے بچانے کے لیے، جلنا اور سِسکنا بھی خدمت ہے۔ گرو کا ایک معمول تھا، وہ اکثر اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے دل کو مضبوطی سے جکڑتے اور خود کلامی کرتے،
اے دل۔۔۔ تجھے قسم ہے۔۔۔ ہمت نہ ہاریو۔۔۔۔
اے میرے دل۔۔۔ تجھے قسم ہے۔۔۔ ہمت نہ ہاریو۔۔۔
اور میں یہ سنتا تو میرا دل کٹ جاتا۔ ابتداء کے تکلف سے آزاد ہوا تو ایک دن پوچھا، آپ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ ایسا کیا ہے جو اندر جل رہا ہے؟ جس کی تپش یہاں آنے والوں کے پتھر دل پگھلا دیتی ہے؟ انہوں نے مجھے یہ تو نہ بتایا کہ کیا کچھ ہے جو ان میں جل رہا ہے مگر ایک عجیب بات ضرور بتائی، کہنے لگے،
’زندگی کی جنگیں لوگ ہار بھی تو جایا کرتے ہیں، وقت، حالات، نصیب انہیں مات دے ہی دیتا ہے۔ زندگی وہ زور آور پہلوان ہے جو پہلے ہمیں خوب تھکاتا ہے، پھر ہمارے سارے داؤ پیچ بے کار کرتا ہے اور پھر ہمیں اس قدر زور سے مار گراتا ہے کہ ہمارے پاس اُٹھ کھڑے ہونے کی بھی ہمت باقی نہیں رہتی اور سب سے آخر میں یہ زندگی ہمیں دھول چٹاتی ہے۔ اسے تب تک سُکون نہیں ملتا جب تک یہ ہمیں جذباتی مار نہ مار دے، ہمارے دل کو نہ توڑ دے، ہماری روح کو نہ زخمی کردے۔ زندگی وہ پہلوان ہے جو چاروں خانے چِت کرتا ہے۔
پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ،
’مگر مجھے بتاؤ، جو زندگی کی بازی ہار جائے وہ کیا کرے؟ جس سے میدانِ جنگ میں اس کے ہتھیار چھین کر اسے معذور کردیا جائے وہ کہاں جائے؟ تم جانتے ہو؟ زندگی کبھی اپنے شکست خوردہ کو میدان سے بھاگنے نہیں دیتی۔ جب تک جسم میں جان ہو، کوئی اس میدان سے بھاگ نہیں سکتا۔ تم کسی جنگجو فوجی سے پوچھنا کہ جب وہ چاروں خانے چِت ہوجائے تو اس کی سب سے بڑی خواہش کیا ہوتی ہے؟ وہ تمہیں یہی بتائے گا کہ اسے بس موت آجائے، اس کی جان نکل جائے اور اسے اگلا لمحہ دیکھنا نصیب نہ ہو۔ مگر تم دیکھو، زندگی کے میدان میں ایسا نہیں ہوتا۔
’یہاں جینا مجبوری ہے، جب تک آپ کا دل دھڑک رہا ہے تب تک آپ کو لڑنا ہے، میدان میں رہنا ہے اور اگر آپ نے اپنا آپ یونہی چھوڑ دیا تو آپ روند دیے جائیں گے، آپ کا کچومر بن جائے گا سو ایسے میں یہی سب سے بہتر ہے کہ آپ اپنی شکست خوردگی میں بھی اپنے سروائیول کا ذریعہ نکالیں اور اس کا سب سے مبارک طریقہ یہی ہے کہ آپ مرہم لگانے والوں کے کیمپ میں شامل ہوجائیں، حوصلہ بڑھانے والوں میں، امید دینے والوں میں۔ آپ کے آس پاس ہر کوئی کسی نہ کسی محاذ پر لڑرہا ہے اور چاہے وہ مانیں نہ مانیں، مانگیں نہ مانگیں، اُنہیں حوصلے کی ضرورت ہے، مرہم کی ضرورت ہے، دلاسے کی، تسلی کی، اُمید کی ضرورت ہے۔
’آپ اُنہیں یہ سب دینے لگ جائیں، اپنے دُکھ کو، زخم کو، شکست کو پسِ پشت ڈال کر مرہم دینے والے بن جائیں، یقین مانیں پھر زندگی آپ کے حوصلے کے آگے گھٹنے ٹیک دے گی، آپ کو رفعتیں بھی ملیں گی اور محبتیں بھی اور آپ کے اپنے زخم بھی بھرنے لگیں گے۔ قدرت آپ کا نام ان دلاور جنگجوؤں میں لکھ دے گی جنہیں ہار نصیب نہیں، جنہیں ہر چڑھتا سورج، ہر کِھلتا پھول سلامی دیتا ہے، جُگنو جن سے روشنی مستعار لیتے ہیں اور دنیا کے تمام لڑنے والے جنہیں اپنا مرشد مانتے ہیں۔‘
میں گرو کی ذات سے جاری جھرنوں میں غرق تھا کہ میرا ہاتھ تھام کر کہنے لگے،
’تم یہ جو پوچھتے ہوکہ مجھ میں کیا جل رہا ہے، مجھ میں میری شکست، میرا دُکھ میرا غم جل رہا ہے اور میں کئی برسوں سے اسی میدان میں ڈٹا کھڑا ہوں جہاں مجھے چِت کیا گیا تھا، میرے جینے کی اُمنگ کا گلا گھونٹا گیا تھا، میں تب سے خاموشی سے مرہم بانٹنے کی مشق میں ہوں، اُمید دینے کی مشق میں، حوصلہ دینے کی مشق میں۔ مگر میرے پیکر کا تخت نشین میرا دل ہے، یہ آج بھی خون آلود ہے، آج بھی ٹوٹا ہوا ہے مگر میں روز اس کی منت کرتا ہوں کہ اے میرے دل، ہمت نہ ہاریو، جب تک سانس میں سانس ہے، ہمت نہ ہاریو۔ جس دن تو نے ہمت ہاردی اُس دن میں روندا جاؤں گا۔ کُچلا جاؤں گا۔ مارا جاؤں گا۔ سو اے میرے دل، تجھے قسم ہے، ہمت نہ ہاریو۔ تجھے قسم ہے، ہمت نہ ہاریو۔‘
گرو کے ہاتھوں کا لمس بہت دل گداز تھا، اُن کی آنکھ سے ایک آنسو ٹپک کر میرے ہاتھ پر آ گرا۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ قطرہ بھی سِسک رہا تھا، مجھ میں کچھ بولنے کی ہمت نہ ہوئی مگر اپنی لکھی ایک بات نے دل کے دریچے پر سرگوشی کی کہ جب آپ ہار جائیں، آپ کا دل ٹوٹ جائے تو اس وقت آپ کے ظرف اور آپ کے ضبط کا امتحان ہوتا ہے، جن کے دل ٹوٹے ہوں وہ اپنا ضبط نہیں ٹوٹنے دیتے۔
خزیمہ سلیمان میڈیا سائنسز کے طالب علم ہیں اور 11 برس سے لکھ رہے ہیں۔ ان کے کالم آغا جی کے نام سے شائع ہوتے ہیں۔ انہیں سیلف ہیلپ اور زندگی سے متعلق موضوعات پر لکھنا پسند ہے.
انہیں فیس بک پر یہاںفالو کریں
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔