پاکستان

صدر مملکت کی انڈونیشیا میں قید پاکستانی کے معاملے پر ہمدردی کی اپیل

یہ قانونی معاملہ ہے تاہم اس معاملے میں آپ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ہمدردی سے غور کیا جائے گا،انڈونیشین صدر

صدر مملکت ممنو ن حسین نے انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو سے ہونے والی ملاقات میں کینسر کے عارضے میں مبتلا سزائے موت کے پاکستانی قیدی کے معاملے پر ہمدردی سے غور کرنے کی اپیل کردی۔

ممنون حسین نے ایوان صدر میں ہونے والی بات چیت کے دوران انڈونیشیا میں قید پاکستانی ذوالفقار علی کا معاملہ بھی اٹھایا اور مہمان صدر سے کہا کہ وہ اس معاملے پر ہمدردی سے غورکریں۔

انڈونیشیا کے صدر نے پاکستانی ہم منصب کی اپیل پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ قانونی معاملہ ہے تاہم اس معاملے میں آپ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ہمدردی سے غور کیا جائے گا۔

قبل ازیں انڈونیشیا کے صدر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مثالی قرار دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میرے لیے اعزازکی بات ہے، پاکستان اور انڈونیشیا کے تعلقات دوستی سے بڑھ کر ہیں۔

مزید پڑھیں:انڈونیشیا میں سزا موت کا پاکستانی قیدی حکومت کی توجہ کا منتظر

خیال رہے کہ ذوالفقار علی کو 2004 میں انڈونیشیا میں اس وقت حراست میں لیا گیا تھا، جب ان کے کمرے میں ساتھ رہنے والے شخص سے منشیات برآمد ہوئی تھی۔

انڈونیشیا کی جیل میں گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ قید کاٹنے والے ذوالفقار علی جگر کے کینسر کے عارضے میں مبتلا ہیں اور ان کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق وہ مزید صرف 3 ماہ تک زندہ رہ سکتے ہیں۔

ذوالفقار علی کے اہل خانہ کی جانب سے درخواست کی گئی تھی کہ حکومت پاکستان انڈونیشین صدر کے دورے کے دوران درخواست کرے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ذوالفقار علی کو رہائی دیں تاکہ وہ اپنی زندگی کے باقی 3 ماہ اپنے خاندان کے ساتھ گزار سکے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بھی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پر زور دیا تھا کہ وہ انڈونیشیا میں سزائے موت کے منتظر قیدی ذوالفقار علی کو واپس لانے کے لیے کردار ادا کریں۔

52 سالہ ذوالفقار علی نے ڈان کو فون پر بتایا تھا کہ جیل میں ہسپتال کا عملہ ان کی دیکھ بھال کرنے سے قاصر ہے اس لیے ان کی اہلیہ تیمارداری کے لیے ہسپتال میں رہنے پر مجبور ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ‘جیل میں ڈاکٹروں کا عملہ موجود ہے لیکن کینسر کے علاج کے لیے نجی ہسپتال جانا بہت ضروری ہے اور یہاں طبی اخراجات ناقابل برداشت ہیں’۔

ذوالفقار علی نے خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'میں اپنے گھر آنا چاہتا ہوں'۔