’اسکرٹ‘ سے متعلق بیان پر چیف جسٹس نے معذرت کرلی
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ’اسکرٹ‘ کے حوالے سے اپنی ایک تقریر میں خواتین کے حوالے سے ’الفاظ‘ استعمال کرنے پر معذرت کر لی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میری کراچی کی تقریر سے اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں، میرا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اسکرٹ کے بارے میں چرچل کی بات کی مثال دی تھی جو ہماری قانون کی کتابوں میں موجود ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خواتین ہمارے معاشرے کا 50 فیصد حصہ ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر اس بات پر ایشو بنانے کی کوشش کی گئی۔
چیف جسٹس نے یہ وضاحت کراچی کے حوالے سے ٹیکس سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کی۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کراچی میں 13 جنوری 2018 کو اپنی تقریر میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم ونسٹن چرچل کے ایک قول کا حوالہ دیا تھا جس میں موثر تقریر کو خواتین کے اسکرٹ کی طرح مختصر رکھنے کا ذکر تھا۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس کی تقریر کے 'الفاظ' پر خواتین وکلا کا احتجاج
بعد ازاں خواتین وکلا کے ایک گروپ کی جانب سے چیف جسٹس کے بیان پر احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس اور سینئر وکلا مستقبل میں اپنی گفتگو میں الفاظ کا چناؤ احتیاط سے کریں۔
پاکستان کے عدالتی نظام میں صنفی برابری کے معیار کے لیے کام کرنے والی ویمن لائرز ایسوسی ایشن (ڈبلیو ایل اے) نے چیف جسٹس کے الفاظ پر مایوسی کا اظہار کیا اور اس کو مردوں کے غالب پروفیشن میں کام کرنے والی خواتین وکلا کے لیے ایک دھچکا قرار دیا۔
ڈبلیو ایل اے کی اراکین جاوزیہ زمان اور ایمان چامدیا کی جانب سے سوشل میڈیا میں جاری بیان کو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں سمیت نامور صحافیوں نے بھی شیئر کیا۔
سوشل میڈیا میں جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ 'خواتین کے حوالے سے امتیازی سلوک پر آج دنیا میں بحث ملازمت کے دوران جنسی طور پر ہراساں کرنے پر چل رہی ہے جبکہ اس طرح کا بیان کسی بھی ملک کے چیف جسٹس کے شایان شان نہیں ہے'۔
ڈبلیو ایل اے کی جانب سے بیان میں زور دیا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے ساتھ ساتھ سینیئروکلا بھی 'مستقبل میں اپنے جملوں میں الفاظ کا استعمال نہایت احتیاط سے کریں' تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ خواتین اور مرد برابر شہری کے طور پر شانہ بشانہ کام کرنے کے اہل ہیں جو قائد اعظم کا وژن بھی تھا۔
ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ڈبلیو ایل اے کی عہدیدار سارا ملکانی کا کہنا تھا کہ گروپ کے اراکین قانون کے میدان میں برابری کے معیار کو بہتر کرنے کی خاطر صنفی تفریق کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔