پاکستان

نقیب قتل کیس: راؤ انوار کے خلاف ایف آئی آر درج

ایس ایس پی ملیر کے 8 ،9 سادہ لباس اہلکار بیٹے کو لے کر گئے تھے، نقیب اللہ محسود کے والد کا موقف
| | |

27 سالہ نقیب اللہ محسود کو راؤ انوار کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں قتل کے خلاف مقتول کے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا گیا۔

مقدمے میں نقیب کے والد نے موقف اپنایا کہ سینیئر سپرانٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر کے 8 ،9سادہ لباس اہلکار بیٹے کو لے کر گئے تھے۔

سچل تھانے میں درج ہونے والے مقدمے میں راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو نامزد کیا گیا ہے۔

مقابلہ جعلی، نقیب اللہ بے گناہ تھا، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی

قبل ازیں نوجوان نقیب اللہ کے ’انکاؤنٹر‘ کے خلاف کراچی میں سہراب گوٹھ پر لگائے گئے احتجاجی کیمپ کے دورے کے موقع پر عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ تفتیشی ٹیم نے 14 گھنٹوں میں ثابت کیا کہ مقابلہ جعلی تھا اور نقیب اللہ بے گناہ تھا۔

خیال رہے کہ 14 جنوری کو شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے جعلی پولیس مقابلہ کیا تھا، جس میں نقیب اللہ کے علاوہ مزید 3 افراد کو قتل کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ کسی کو بھی ماورائے عدالت قتل کی اجازت نہیں ہے، نقیب اللہ محسود کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

ثناء اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ پولیس آپریشن کی وجہ سے امن و امان قائم ہوا لیکن پولیس میں کسی کو غیر قانونی کام کی اجازت نہیں دیں گے۔

مزید پڑھیں: ’ماورائے عدالت قتل‘ ازخود نوٹس کیس: راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم

انہوں نے کہا کہ آئی جی نے تحقیقاتی کمیٹی بنائی ہے اور بے گناہ کو انصاف ملے گا، ہم کسی کے خلاف نہیں ہیں لیکن کوئی یہ توقع نہ کرے کہ کسی کا ساتھ دیں گے۔

ثناء اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ ہمیں خدا کو جواب دینا ہے جبکہ اس سے پہلے یہاں عدالتوں اور افسران کو بھی دینا ہے، جو اس مقابلے میں ملوث ہے اس کا انجام پوری دنیا دیکھے گی اور ملوث عناصر کو ضرور سزا ملے گی۔

سندھ حکومت کسی کو بچانے کی کوشش نہیں کررہی، سہیل انور سیال

دوسری جانب وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کسی کو بچانے کی کوشش نہیں کررہی، قانون سب کے لیے برابر ہے، کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دیں گے۔

اعلیٰ سطح اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کسی کو اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی بے گناہ کو قتل کرے، اس معاملے کی تحقیقات میرٹ پر کی جارہی ہیں اور ملوث افراد کو سزا دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ نقیب اللہ محسود کے اہل خانہ آج ( 23 جنوری) کو ایف آئی آر درج کرائیں گے، جس کے بعد تفتیش کا باقاعدہ آغاز ہوگا۔

سہیل انور سیال کا کہنا تھا راؤ انوار کو اگر تحقیقاتی کمیٹی پر تحفظات تھا اور اگر ان کے پاس نقیب اللہ سے متعلق کوئی ثبوت تھے تو وہ پیش کرنے چاہیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ نقیب اللہ کے معاملے پر تحقیقاتی ٹیم کے کام سے مطمئن ہوں، راؤ انوار ذمہ ہوئے تو ان کا دفاع نہیں کریں گے۔

صحافیوں سے بات چیت کرنتے ہوئے انہوں نے نقیب اللہ کے علاوہ انتظار قتل کیس اور شاہراہ فیصل پر مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے مقصود کے حوالے سے بھی بات کی۔

انہوں نے کہا کہ تمام مقدمات میں کسی کو بچانے کی کوشش نہیں کر رہے، تینوں مقدمات کی نوعیت الگ ہے اور اس پر تفتیش کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تینوں مقدمات میں چاہے کوئی بھی ملوث ہو اور وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

اس سے قبل وزیرداخلہ سندھ سہیل انور سیال کی صدارت میں ہونیوالے اجلاس میں نقیب اللہ محسود اور انتظار احمد قتل کیس کے معاملے کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور تفتیش میں ہونے والی پیش رفت پر غور کرکے مزید احکامات دیے گئے۔

اجلاس میں ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق احمد مہر، ایڈیشنل آئی جی آفتاب پٹھان،ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ڈاکٹرثناء اللہ عباسی، ڈی آئی جی شرقی سلطان علی خواجہ، ڈی آئی جی جنوبی آزاد خان،ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عامرفاروقی ودیگر سینئر پولیس افسران کے علاوہ انتظاراحمد قتل کیس کے تفتیشی افسر نے بھی شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں: بیرون ملک فرار کی خبریں بے بنیاد ہیں، راؤ انوار

اجلاس میں نقیب اللہ محسود پولیس مقابلے کی انکوائری کمیٹی نے بھی اجلاس کو ہر پہلو اور زاویئے سے کی جانیوالی انکوائری پر بھی بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ انتہائی شفاف اور غیر جانبدارانہ انکوائری رپورٹ جلد سے جلد ترتیب دیکر حقائق کو سامنے لایا جائیگا اور قانون کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا۔

نقیب اللہ کی ہلاکت کا مقدمہ آج درج کرایا جائے گا

مقتول نقیب اللہ محسود کے کزن نور محسود کا کہنا تھا کہ نقیب اللہ کے معاملے پر مقدمہ آج ( 23 جنوری ) کو درج کروایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مقدمہ والد کی مدعیت میں درج کیا جائے گا، اس حوالے سے قبائلی عمائدین قانونی ماہرین سے مشاورت کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ قانونی ماہرین سے مشاورت کے بعد انکوائری کمیٹی کو بیان دیا جائے گا اور نقیب اللہ کے قتل کا مقدمہ درج کرایا جائے گا۔

مقابلے میں ہلاک افراد کا ریکارڈ طلب

ادھر نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کے بعد اس مبینہ پولیس مقابلے میں دیگر 3 افراد کی ہلاکت کی بھی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق اس حوالے سے پنجاب، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور آزاد کشمیر پولیس سے تینوں افراد کا کرمنل ریکارڈ طلب کرلیا گیا جبکہ پولیس کو تینوں ملزمان کا شناختی کارڈ نمبر، تصاویر اور دیگر معلومات فراہم کردی گئی ہیں۔

کیس میں فوکل پرسن نامزد

آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نےنقیب اللہ کیس میں ڈی آئی جی ایسٹ سلطان علی خواجہ کو فوکل پرسن نامزد کردیا۔

آئی جی سندھ کے دفتر سے جاری ہونے والے اس نوٹیفیکیشن کے مطابق فوکل پرسن اس کیس کے حوالے سے جملہ تفصیلات میڈیا سے شیئر کرینگے۔

نوٹیفیکیشن میں مزید بتایا گیا کہفوکل پرسن نامزد کیے جانے کا مقصد حقائق سے آگاہی اور انصاف کا بول بالا کرنا ہے۔

نقیب اللہ کا قتل

یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازعہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

بعد ازاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ معاملہ اٹھا تھا جس کے بعد وزیر داخلہ سندھ اور بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

تحقیقات کے حکم کے بعد ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک تفتیشی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس میں ڈی آئی جی شرقی اور ڈی آئی جی جنوبی بھی شامل تھے۔

ابتدائی طور پر راؤ انورا اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور بیان ریکارڈ کرایا تھا، تاہم اس دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے احکامات کی روشنی میں انہیں معطل کردیا گیا تھا۔