لکھاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔
1960ء میں جب ماؤ ژی تنگ نے پاکستان میں اپنے دوسرے سفیر جنرل جینگبیاؤ کو بھیجا تھا، تو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جنرل کو مشورہ دیا تھا کہ
’پاکستان کا خیال رکھنا، یہ مغرب کی طرف چین کا دروازہ ہے۔‘
ممکن ہے کہ ماؤ کے یہ خیالات جغرافیائی سے زیادہ تشبیہاتی ہوں گے۔ 1960ء میں پاکستان مغرب کی جانب چین کا سفارتی دروازہ تھا، اور یہی وہ خصوصیت تھی جس کی وجہ سے 1971ء میں بالآخر چین اور امریکا کے مابین تعلقات بحال کروائے، اور آج صورتحال یہ ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کی صورت میں ماؤ کے الفاظ جغرافیائی حیثیت سے بھی حقیقت بنتے جا رہے ہیں۔
جنرل جینگبیاؤ، جو آگے چل کر چین کے وزیرِ دفاع اور نائب وزیرِ اعظم بنے، انہوں نے پاکستان اور چین کے اسٹریٹجک تعلقات کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی کام پاکستان کے وزیرِ اعظم محمد علی بوگرہ اور بعد میں وزیرِ خارجہ اور وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ادا کیا۔
بدقسمتی سے پاکستانی عوام کی بڑی تعداد، بالخصوص نوجوان، پاکستان اور چین کے تعلقات کی تاریخ، گہرائی اور جواز سے واقف نہیں ہیں۔ مغرب کی طرف جھکاؤ رکھنے والے چند پاکستانی تو پاکستان کو مضبوط دیکھنے کی چینی خواہش پر بھی سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
پاکستان اور چین کے تعلقات بین الاقوامی سیاست اور دونوں ممالک میں ہونے والی داخلی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے اتار چڑھاؤ کے باوجود بھی قائم رہے ہیں کیوں کہ یہ تعلقات دونوں ممالک کے قومی مفاد اور دیرپا ہم آہنگی کی بنیاد پر قائم ہیں۔
گزشتہ 50 سالوں میں پاکستان نے پُرعزم طریقے سے چین کے اتحاد اور اس کی جغرافیائی خود مختاری کا دفاع کیا، چین کو اقوامِ متحدہ میں اس کی جائز نشست دلوانے کے لیے انتھک محنت کی اور چین کو انسانی حقوق کے مسئلے پر آڑے ہاتھوں لینے اور اس کی سماجی معاشیاتی کامیابیوں کو نیچا دکھانے والوں کی کوششوں کو ناکام بنایا۔
دوسری جانب چین نے بھی مختلف انداز میں پاکستان کی حمایت کی ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔
کب کب کیا ہوا؟ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔
۔ 1965 میں چین نے اپنی افواج ہندوستان کے ساتھ اپنی متنازعہ سرحد پر تعینات کردیں جس کی وجہ سے ہندوستان پاکستان کے خلاف اضافی افواج تعینات کرنے سے باز رہا۔
۔ 1971 میں ہندوستان نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو چین نے پاکستان کی سرحدوں کی سلامتی کا دفاع کیا اور وہ پاکستان کی اپیل پر فوجی مداخلت کرنے کو تیار تھا، مگر سوویت یونین کی جانب سے ایٹمی حملے کی کھلی دھمکی کی وجہ سے رک گیا۔
۔ 1972 میں پاکستان کی درخواست پر چین نے اقوامِ متحدہ میں بنگلہ دیش کی شمولیت کو تب تک کے لیے ویٹو کردیا جب تک کہ ڈھاکہ اور دہلی پاکستان کے 90 ہزار جنگی قیدیوں کو رہا کرنے پر تیار نہ ہوگئے۔
۔ چین نے ٹیکسلا میں پاکستان ہیوی انڈسٹریل کمپلیس اور دیگر صنعتی سہولیات گرانٹس کی بنیاد پر تعمیر کیں۔
۔ امریکی دباؤ اور پابندیوں کے باوجود چین نے پاکستان کو اس کے پہلے بیلسٹک میزائل فراہم کیے اور اسے اپنی خوفناک میزائل صلاحیتیں تیار کرنے میں مدد دی۔
۔ چین اب بھی وہ واحد ملک ہے جو پاکستان کو سویلین ایٹمی ری ایکٹر فروخت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں ہندوستان کی شمولیت کا راستہ روک رکھا ہے۔
۔ 3 دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے تک چین کا نیا اسلحہ پاکستان کو اسی وقت دستیاب ہوجاتا جب وہ چین کی اپنی فوج پیپلز لبریشن آرمی کو دستیاب ہوتا۔
۔ چین وہ واحد ملک تھا جو پاکستان کے ساتھ جدید ترین جنگی طیاروں اور دیگر اسلحہ سسٹمز کی مشترکہ تیاری پر راضی تھا۔
۔ جب چین کے اقتصادی حالات بہتر ہوئے تو اس نے خاموشی کے ساتھ پاکستان کی مالی مدد (قرض، گرانٹ، بینک ڈپازٹ) میں لگاتار اضافہ کیا تاکہ پاکستان اپنی معاشی ایمرجنسیوں اور اس کے گرتے ہوئے خزانوں کو سنبھال سکے۔
۔ چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا پہلا حصہ پاکستان سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا کے کسی بھی ملک کی کمپنیاں پاکستان میں کام کرنے یا سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔
۔ اور آخر کار یہ کہ جب ہندوستان پاکستان کو 'تنہا' کرنے کی ایک عالمی میڈیا اور سفارتی مہم چلا رہا ہے، پاکستان کو 'محدود جنگ' اور 'سرجیکل اسٹرائیکس' کی دھمکیاں دے رہا ہے، اور جب امریکا افغانستان میں اپنی ناکام حکمتِ عملی کو سہارا دینے اور ہندوستانی احکامات کے آگے جھکنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے، تو یہ چین ہی ہے جس کا سلامتی کونسل میں ویٹو اور دنیا کے بڑے دارالحکومتوں میں اس کا اثر و رسوخ ہے جو پاکستان کے خلاف منفی بین الاقوامی فیصلوں اور اقدامات کی راہ میں آڑے آجاتا ہے۔
اس وقت پروان چڑھتے اس ایشیائی کھیل میں جنوبی ایشیاء اور ارد گرد میں تعلقات کا انحصار چین امریکا، چین ہندوستان اور پاکستان و ہندوستان کے مابین تعلقات پر ہوگا۔
اپنی حالیہ سیکیورٹی دستاویز میں امریکا نے چین کو 'حریف' قرار دیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ صدر ٹرمپ شمالی کوریا پر دباؤ ڈالنے یا سزا دینے میں چین کی ناکامی اور چین کے ساتھ امریکی تجارتی خسارے میں کمی لانے میں ناکامی سے 'تنگ' آگئے ہیں۔ چین کے خلاف تجارتی ایکشن متوقع ہے۔ پینٹاگون بار بار بحرِ جنوبی چین میں ’جہاز رانی کی آزادی‘ کا بیانیہ دہرا رہا ہے۔ چین کے اردگرد نئے اتحاد بنانے کی امریکی کوششیں سرگرم ہیں۔
امریکا کی اس مہم کی شدت میں کمی لانے کے لیے لگتا ہے کہ چین نے اپنے مرکزی ایشیائی حریفوں جاپان اور ہندوستان، اور ایشیاء میں ان ریاستوں کی جانب اپنا مؤقف نرم کیا ہے جس کے ساتھ اس کے بحرِ جنوبی چین میں بحری تنازعات ہیں۔ مثال کے طور پر ڈونگلان (ڈوکلام) جھڑپ میں چین نے نئی دہلی کو سبکی سے بچانے کے لیے ہندوستانی افواج کے واپس بلا لیے جانے کی خبر عام نہیں کی اور برکس سربراہی اجلاس کے اعلامیے کو بھی تسلیم کیا جس میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے 'دہشتگرد' قرار دی گئی تنظیموں کے نام تھے۔
ظاہر ہے کہ بیجنگ نہیں چاہتا کہ ہندوستان چین کے خلاف امریکا سے کوئی نیا اتحاد کرلے۔ اس کے سفارتی حربے اہم اسٹریٹجک فیصلوں کو مؤخر کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں، مگر یہ سامنے نظر آ رہا ہے کہ ٹرمپ اور ان کے جنرل چین کے ساتھ ایک کھلم کھلا فوجی اور اسٹریٹجک تنازعے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
اگر ہندوستان نے اب تک امریکا کے ساتھ عسکری اتحاد نہیں بنایا ہے تو وہ ایسا ضرور کرلے گا۔ ہندوستان چین کو اپنا قدرتی 'حریف' سمجھتا ہے۔ وہ چین کو حاصل زبردست قوت کے حصول کا خواہشمند ہے۔ 1962ء کی شکست اب بھی اسے یاد ہے۔ چین کے ساتھ سرحدی تنازعات اب بھی حل نہیں ہوئے ہیں۔ ایک طاقتور، مسلم مخالف، چین مخالف 'جمہوری' امریکا مودی کے ہندوستان کی نظر میں 'قدرتی اتحادی' ہے۔
اِس صورتحال میں پاکستان کے پاس چین کے ساتھ اپنی اسٹریٹجک شراکت داری کو محفوظ رکھنے اور مضبوط کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ متبادل یہ ہے کہ ہند امریکی غلبے کو تسلیم کرلیا جائے۔
اپنی طویل اور قریبی شراکت داری کے باوجود پاکستان اور چین کو اپنے اس تعلق کو برقرار رکھنے، مزید مضبوط کرنے اور وسعت دینے کے لیے فوری اور سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ ان اقدامات میں دہشتگرد گروہوں، مثلاً چین کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والی ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ کا قلع قمع، سی پیک کے خلاف بلوچستان اور گلگت بلتستان (جو کہ سی پیک کی شہ رگ ہے) میں غیر ملکی مدد سے ہونے والی سبوتاژ کی کارروائیوں کو روکنا، سی پیک منصوبوں پر مؤثر عملدرآمد، پاکستان کی معاشی اور صنعتی ترقی کے لیے چین کی بھرپور امداد، افغانستان میں امن کا قیام اور امریکا کی وہاں سے بے دخلی، ہندوستان کی پاکستان مخالف دھمکیوں کے خلاف ایک مشترکہ مؤقف اور پاکستان کی افواج کی تیز تر ماڈرنائزیشن اور پیپلز لبریشن آرمی کے ساتھ حربی ہم آہنگی شامل ہے۔
قدرتی طور پر چین اور پاکستان دونوں اُمید رکھتے ہیں کہ ٹرمپ کے بعد کسی دور میں امریکا کی حالیہ جنگ پر تیار پالیسیاں مزید معقول پالیسیوں میں تبدیل ہوجائیں گی۔ تب تک پاکستان اور چین کو مغرب کی جانب اپنے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں۔
انگلش میں پڑھیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 21 جنوری 2018 کو شائع ہوا۔