پاکستان

نیب ریفرنسز: شریف خاندان کے خلاف مزید دو گواہان طلب

احتساب عدالت میں سماعت کے دوران استغاثہ کے دو گواہان نے بیان قلمبند کرائے،تیسرے گواہ آفاق احمد کا بیان ریکارڈ نہ ہوسکا۔
|

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں دائر 3 مختلف ریفرنسز کی سماعت کے دوران نیب استغاثہ کے دو گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے جبکہ مزید دو گواہان کو طلبی کے سمن جاری کردیئے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر، شریف خاندان کے خلاف نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کی سماعت کر رہے ہیں۔

سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ان کے ہمران پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت بھی احتساب عدالت کے باہر موجود تھی جہاں انہوں نے نواز شریف کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔

سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ نجی بینک کے آپریشنل مینجر غلام مصطفیٰ نے عدالت کو بتایا کہ وہ 22 اگست 2017 کو نجی بینک افسر یاسر شبیر کے ساتھ نیب راولپنڈی میں پیش ہوئے تھے اور انہوں نے نواز شریف کے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات تفتیشی افسر کو جمع کرائیں تھیں، جس کے بعد تفتیشی افسر نے تصدیق شدہ کاپیاں وصول کرنے کے بعد سیزر میمو تیار کیا۔

مزید پڑھیں: ’جس کی ضمانت ضبط ہونے والی تھی اسے وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا‘

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جرح کرتے ہوئے غلام مصطفیٰ سے پوچھا کہ کیا تفتیشی افسر نے آپ سے ہل میٹل کا بھی کوئی ذکر کیا تھا، جس پر انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسر کو دیئے گئے بیان میں ہل میٹل کا ذکر نہیں۔

سماعت کے دوران دوسرے گواہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب عزیز ریحان نے بتایا کہ ان کی موجود گی میں سدرہ منصور نے 25 اگست 2017 کو نواز شریف اور ان کے بچوں کی کمپنیوں کا ریکارڈ تفتیشی افسر محبوب کو پیش کیا تھا، جس کے بعد تفتیشی افسر نے میرا بیان ریکاڈ کیا اور سیزر میمو تیار کیا تھا اور میرے دستخط بھی لیے تھے۔

اس موقع پر خواجہ حارث نے کہا کہ اس گواہ پر جراح نہیں کرنا چاہتا، نیب نے 4 ماہ بعد ضمنی ریفرنس دائر کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں 7 دن کا وقت نہیں دیا جارہا، ہم ضمنی ریفرنس پڑھنا چاہتے ہیں لہٰذا ہمیں وقت دیا جائے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت ہیں کہ اس کیس کو 6 ماہ میں مکمل کیا جائے، اگلی سماعت پر ضمنی ریفرنس کے گواہان کو طلب کرلیتے ہیں۔

سماعت کے دوران استغاثہ کے تیسرے گواہ آفاق احمد بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے، تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے مطلوبہ دستاویزات نہ ملنے پر ان کا بیان قلمبند نہ ہوسکا۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ سے دستاویزات ملنے کے بعد ہی آفاق احمد کا بیان قلمبند کیا جائے گا، جس کے بعد عدالت نے آئندہ سماعت 30 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے مزید دو گواہوں کو طلبی کے سمن جاری کردیے۔

احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔

دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔

تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔

بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔

کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نیب ریفرنس: احتساب عدالت میں ہائیکورٹ کا حکم نامہ پیش

عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر پر فردِ جرم عائد

ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔

نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔

عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔

نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔

22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔

6 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے نواز شریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔

7 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا تھا۔

11 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا تھا۔

19 دسمبر 2017 کو احتساب عدالت میں 3 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے جبکہ استغاثہ کے دو مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

مزید پڑھیں: نیب ریفرنس: شریف خاندان کی درخواست پر احتساب عدالت کی سماعت ملتوی

3 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران طلب کیے گئے دونوں گواہان کے بیانات قلمبند اور ان سے جرح بھی مکمل کی گئی تھی جس کے بعد احتساب عدالت نے 5 مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

9 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران مزید طلب کیے گئے 4 گواہان کے بیانات قلمبند کیے تھے۔

16 جنوری 2018 کو احتساب عدالت میں سماعت کے دوران 2 گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے، تاہم ایک گواہ آفاق احمد کا بیان قلمبند نہیں ہوسکا تھا۔

22 جنوری کو سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف لندن میں ایون فیلڈز اپارٹمنٹس سے متعلق ریفرنس میں نیب کی جانب سے ملزمان کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کیا تھا۔

نیب کی جانب سے دائر اس ضمنی ریفرنس کی مدد سے مرکزی ریفرنس میں مزید 7 نئے گواہان شامل کئے گئے تھے جن میں سے 2 کا تعلق برطانیہ سے تھا۔