پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر داخلہ سندھ سہیل انوار سیال نے نقیب اللہ محسود کی مبینہ طور پر پولیس مقابلے میں ہلاکت کا نوٹس لے لیا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے وزیر داخلہ سندھ سے واقعے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے تحقیقات کی ہدایت کردی۔
دوسری جانب وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال نے بھی نقیب محسود کے جعلی پولیس مقابلے میں جاں بحق ہونے کے حوالے سے سوشل میڈیا رپورٹ پر نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی جنوبی کو انکوائری افسر مقرر کردیا۔
سہیل انور سیال نے ڈی آئی جی جنوبی کو ہدایت کی کہ اس واقعے کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات پر مشتمل رپورٹ فوری طور پر فراہم کی جائے۔
دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ میں نقیب اللہ محسود کے قتل پر قرار داد جمع کرا دی گئی، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ نقیب اللہ محسود کے قتل سمیت ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات کی جائیں۔
نقیب اللہ کا قتل
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو گزشتہ ہفتے ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے، تاہم اس وقت نقیب اللہ کا نام ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔
نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ڈان کو بتایا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ مقتول اس سے قبل بلوچستان میں حب چوکی پر ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتا تھا اور اس کے کسی عسکریت پسند گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔