کوریا کا بٹوارہ: تاریخی حماقت، امریکا کے لیے مستقل دردِ سر
دو ریاستوں میں بٹے کوریا کا ایک جھنڈے تلے اولمپکس کھیلوں میں حصہ لینے پر اتفاق دنیا کے لیے بڑی اور خوشگوار حیرت میں مبتلا کرنے والی بریکنگ نیوز ہے۔ مگر اِس خوشگوار خبر کے باوجود کوریا میں جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں جس کا واضح اشارہ 23 جنوری سے ورلڈ اکنامک فورم کے آغاز سے پہلے فورم کی جاری کردہ رپورٹ میں دیا گیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ دنیا ایک ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے صدر کِم جونگ ان (Kim Jong-un) کے درمیان لفظی گولہ باری سے صورت حال سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ شمالی کوریا کے معاملے پر صورت حال عشروں تک اِس قدر سنگین نہیں تھی جتنی ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے محض ایک سال کے مختصر وقت میں ہوگئی ہے۔
شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے حالیہ تنازع اور جنگ کے امکانات کو سمجھنے کے لیے اِس کا تاریخی پسِ منظر جاننا ضروری ہے۔ 1910ء تک کوریا ایک ہی ملک تھا جس پر 5 صدیوں سے ایک ہی خاندان حکمران چلا آ رہا تھا۔ پھر 1910ء میں جاپان نے کوریا پر قبضہ کیا اور 35 سال تک کوریا جاپان کا حصہ رہا۔