’میں نے انقلابِ ایران دیکھا‘
ایران سے میرا پہلا تعارف گھر میں رکھے مرفی ریڈیو سے ہوا، جہاں میرے کانوں میں ہر روز یہ آواز گونجتی، ’یہ ریڈیو زاہدان ایران ہے۔‘
ایران کو پہلی بار چھو لینا میری جہاں گردی کی ایک بڑی خوشی تھی۔ زاہدان سے مشہد پہنچنے تک بس میں بنے ہمسفروں سے تعلق کافی گہرا ہوچکا تھا۔ ایران داخل ہوتے ہی نام نہاد فارسی بولنے کا تجربہ تو کیا، مگر ناکام رہا۔ انہی ہمسفروں میں ایک میری ہی عمر کا نوجوان زائر شیخ جمیل بھی تھا، جو شاہ عالمی لاہور میں ایک دکان چلاتا تھا۔ اُس کی والدہ نے اُسے بازار سبزی خریدنے بھیجا تو اُس نے مجھے بھی ساتھ لے لیا۔
وہ اپنی والدہ، خالہ اور بہنوں کے ہمراہ اِس سے پہلے بھی زیارتوں کے لیے ایران کا سفر کرچکا تھا، اِس لیے فارس اور فارسی کی کافی سوجھ بوجھ رکھتا تھا۔ جمیل، لاہور کے بڑے تجارتی بازار شاہ عالمی کی مخصوص دکان دارانہ شخصیت کا مالک مگر نہایت حسِ مزاح رکھتا تھا۔ بدیس میں خریداری کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا، اور وہ بھی سبزی خریدنے کا تجربہ کہ جیسے ہم اپنے گھر کے لیے گروسری کرنے جارہے ہوں۔
جمیل نے ایک سبزی کی دُکان کے قریب پہنچ کر مجھے کہا، ’تم اِس دکان سے کھیروں کا بھاؤ تاؤ کرو، میں ساتھ والی دکان سے گِھی وغیرہ لے لوں۔‘
میں بڑے اعتماد کے ساتھ کھیروں کا نرخ معلوم کرنے کے لیے بار بار فارسی اردو کے امتزاج سے پوچھ رہا تھا،
’کھیرے کس دام بیچ رہے ہو؟‘
دکان دار نے جب میری زبان سے بار بار کھیرے کھیرے کا لفظ سنا تو اُس نے اِسے فارسی کی ایک معروف گالی ’داغی‘ سمجھی، جو پنجابی گالی سے نوے فیصد قریب تھی، اور یہ سنتے ہی وہ جھاڑن کو اُلٹا کرکے مجھے مارنے کے لیے دوڑا۔ جمیل یہ منظر دیکھ رہا تھا اور اُس کے قہقہے بند ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے، مگر ساتھ ہی اُس نے لپک کر سبزی فروش سے کہا،
’خارجی ہے، اِسے فارسی نہیں آتی، معاف کردو اِسے۔ اِسے کیا معلوم کہ ایران میں اِس سبزی کو ’خیار‘ کہتے ہیں، ’کھیرا‘ نہیں۔‘
اگر جمیل مجھے نہ بچاتا تو اپنی فارسی دانی پر یقیناً میں اُس سبزی فروش کے ہاتھوں خوب پٹتا۔
پڑھیے: ایرانی مظاہروں کے پیچھے جائز مطالبات یا غیر ملکی سازش؟
مشہد تک بس میں میرے ساتھ والی سیٹ پر شاہ عالمی کا ایک اور دکان دار بیٹھا تھا جو زیارتوں کے لیے سفرِ ایران کررہا تھا۔ وہ بڑے روحانی موڈ میں تھے اور بُلند آواز میں بار بار درود وسلام کے ساتھ یہ کہتا، ’مولا نے بلایا ہے، سارے ایران میں موجود زیارتیں کرکے ہی جاؤں گا۔‘ یہ صاحب شاہ عالمی لاہور میں بال پوائنٹ پین کا کاروبار کرتے تھے۔ اُس نے یقیناً ایران میں داخل ہوتے ساتھ ہی دو چار سو ڈالر تبدیل کروا لیے تھے۔
ایرانی کرنسی اُن دنوں بُری طرح Devalue تھی۔ 100 ڈالر کے بدلے آپ کو جس قدر ایرانی کرنسی ’تومان‘ ملتی، اُسے آپ ایک جیب میں نہیں رکھ سکتے تھے۔ بال پوائنٹ پین کے تاجر شیخ صاحب ڈالروں کے عوض تبدیل کیے گئے تومان بار بار گنتے اور اپنے ہینڈ کیری بیگ میں رکھ لیتے۔