پاکستان

’جس کی ضمانت ضبط ہونے والی تھی اسے وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا‘

بلوچستان کےنئے وزیراعلیٰ صرف500ووٹ لے کر اسمبلی میں آئے تھےاور ذہن پر زور ڈالیں تو ساری بات سمجھ میں آجائے گی، نوازشریف
  • احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی
  • قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں دائر 3 مختلف ریفرنسز کی سماعت کے دوران نیب استغاثہ کے دو گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے جبکہ عدالت نے مزید تین گواہان کو طلبی کا سمن جاری کردیا۔

    وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر، شریف خاندان کے خلاف نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کی سماعت کر رہے ہیں۔

    سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ان کے ہمران پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت بھی احتساب عدالت کے باہر موجود تھی جہاں انہوں نے نواز شریف کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔

    احتساب عدالت میں آج کی سماعت کے دوران نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف نیب ریفرنسز میں مزید دو گواہوں نے بیانات قلمبند کر لئے تاہم سپریم کورٹ سے اصل دستاویزات نہ ملنے پر تیسرے گواہ آفاق احمد کا بیان قلمبند نہ ہوسکا۔

    مزید پڑھیں: ’نواز شریف عدلیہ پر تنقید کرکے آئینی بغاوت کے مرتکب ہوئے’

    سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ناصر جونیجو نے عدالت کو بتایا کہ وہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ کی انکوائری میں شامل ہوئے تھے اور 21 اگست 2017 کو شہباز حیدر نے چوہدری شوگر ملز سے متعلق ریکارڈ فراہم کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ تفتیشی آفسر نے شہباز حیدر کے بعد فلیگ شپ میں میرا بیان بھی ریکارڈ کیا اور یہ ساری کارروائی 21 اگست 2017 کو ہوئی تھی۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے سوال پر ناصر جونیجو نے بتایا کہ فلیگ شپ انکوائری میں شہباز حیدر کا بیان قلمبند کئے جانے کے علاوہ ان کے سامنےنا کوئی بیان قلمبند کیا گیا اور نہ ہی کوئی کارروائی ہوئی۔

    استغاثہ کے دوسرے گواہ عمردراز گوندل نے عدالت کو بتایا کہ وہ نیب کی طرف سے جاری کئے گئے طلبی کے سمن کو لے کر شمیم ہاؤس جاتی عمرہ گئے تھے جہاں ملک عارف نامی سیکیورٹی انچارج نے سمن وصول کئے۔

    عمردراز نے بتایا کہ انہوں نے سمن کی تعمیلی رپورٹ تفتیشی افسر کو جمع کرادی تھی۔

    یہ بھی پڑھیں: 'نواز شریف کی اداروں پر تنقید عوام کو تشدد پر اکسانے کی کوشش'

    استغاثہ کے تیسرے گواہ آفاق احمد بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے تھے تاہم سپریم کورٹ کی طرف سے مطلوبہ دستاویزات نہ ملنے پر ان کا بیان قلمبند نہ ہوسکا۔

    نیب استغاثہ نے عدالت سے درخواست کی کہ سپریم کورٹ سے ریکارڈ کے حصول کیلئے درخواست جمع کرائی ہے، اصل دستاویزات موصول ہونے کے بعد آفاق احمد کا بیان قلمبند کیا جائے۔

    عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت 23 جنوری تک ملتوی کردی اور آفاق احمد سمیت مزید تین گواہوں کو طلبی کے سمن جاری کردیئے۔

    جس کی ضمانت ضبط ہونے والی تھی اسے وزیراعلیٰ بنا دیا گیا، نواز شریف

    احتساب عدالت کے باہر نواز شریف نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس پرانے دور کی فلموں کی طرح لگتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہفتے میں فلم زبردست چلتی تھی، دوسرے میں زبردستی چلائی جاتی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب حکومت اپنی مدت پوری کرنے والی ہے، تحریکیں چلانا سمجھ سے بالاتر ہے۔

    مزید پڑھیں: ملک میں انصاف کےدو ترازو نہیں چلیں گے، نواز شریف

    بلوچستان کے نئے وزیر اعلیٰ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس بندے کی ضمانت ضبط ہونے والی تھی اور وہ صرف 500 ووٹ لے کر اسمبلی میں آیا تھا اسے وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ذہن پر زور ڈالیں تو ساری بات سمجھ میں آجائے گی۔

    علاوہ ازیں عدالت کے باہر وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے بھی میڈیا سے بات چیت کرتے کہا کہ جب سی پیک بن رہا تھا تو دو سیاسی کزنز کنٹینر بنا رہے تھے، جب دہشت گردی ختم ہورہی تھی تو بھی دوسری طرف کنٹینر بن رہا تھا اور جب میٹرو اور سڑکوں کا جال بچھ رہا تھا تب بھی دوسری جانب کنٹینر تیار ہورہا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ سیاسی کزنز نامعلوم نجومیوں کی اے بی سی ٹیم بننے کی تیاری کررہے ہیں جبکہ پاکستان کے عوام کی اے ٹیم صرف پاکستان مسلم لیگ (ن) ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: ’نواز شریف کےخلاف ریفرنس پہلے دائر ہوا،ثبوت اب ڈھونڈے جارہے ہیں‘

    خیال رہے کہ نواز شریف احتساب عدالت میں اپنے خلاف چلنے والے کیس کی سماعت کے لیے اب تک 13 ویں مرتبہ جبکہ مریم نواز 14 ویں مرتبہ عدالت میں پیش ہوئی ہیں۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے تھے جبکہ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا نام ایون فیلڈ ایونیو میں موجود فلیٹس سے متعلق ریفرنس میں شامل ہے۔

    سپریم کورٹ نے نیب کو 6 ہفتوں کے اندر شریف خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت جاری کی تھی، تاہم نیب نے 8 ستمبر کو عدالت میں ریفرنسز دائر کیے تھے۔

    احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی

    اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔

    دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

    خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔

    تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

    نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔

    بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔

    کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

    9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔

    یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

    عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔

    یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر پر فردِ جرم عائد

    ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔

    نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔

    عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

    بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔

    نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

    15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔

    22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔

    6 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے نواز شریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔

    7 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا تھا۔

    11 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا تھا۔

    19 دسمبر 2017 کو احتساب عدالت میں 3 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے جبکہ استغاثہ کے دو مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

    3 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران طلب کیے گئے دونوں گواہان کے بیانات قلمبند اور ان سے جرح بھی مکمل کی گئی تھی جس کے بعد احتساب عدالت نے 5 مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

    9 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران مزید طلب کیے گئے 4 گواہان کے بیانات قلمبند کیے تھے۔