لائف اسٹائل

جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات پر شوبز سے وابستہ خواتین کا ردعمل

نادیہ جمیل اور فریہا الطاف نے اپنے پیغام میں خود کے ساتھ ہونے والے واقعات کے ساتھ زینب کیلئے انصاف کی آواز بھی اٹھائی۔

ملک میں حال ہی میں بچوں کے خلاف جنسی ہراساں اور ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات نے جہاں والدین میں تشویش کی لہر پیدا کردی ہے وہیں صوبہ پنجاب کے شہر قصور سے تعلق رکھنے والی 6 سالہ بچی زینب کے اغوا کے بعد لرزہ خیز قتل کے واقعے نے پورے ملک کا دل رنجیدہ کردیا تاہم اس کے قاتل کی تلاش جاری ہے۔

اس واقع کے بعد پاکستان کی نامور شخصیات نے ملک کے بچوں کے لیے محفوظ معاشرہ فراہم کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچپن میں جنسی ہراساں ہونے کے واقعات بھی عوام سے شیئر کیے تاکہ لوگوں کو اس معاملے کی سنجیدگی کا احساس ہو۔

اداکارہ نادیہ جمیل اور فیشن انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی فریہا الطاف نے اپنے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں زینب کے لیے انصاف کی آواز بھی اٹھائی۔

اپنے واقعات کو شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ایسے لوگوں کے خلاف ایکشن لیا جائے جو بچوں کو ہراساں کرتے ہیں جبکہ یہ بھی پیغام دیا کے جن کو ہراساں کیا جائے ان پر تنقید کرنے جیسے کلچر کو ختم ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: قصور:کمسن بچی کے مبینہ ریپ، قتل پر احتجاج، توڑ پھوڑ

نادیہ نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’مجھے پہلی مرتبہ میرے قاری صاحب نے جنسی طور پر ہراساں کیا، جس کے بعد میرے ڈرائیور اور ایک امیر اور پڑھے لکھے گھرانے کے بیٹے نے، جس کے بعد اب ایک خوشحال زندگی گزارنے والے شادی شدہ شخص نے لندن میں مجھے ہراساں کیا۔ میری فیملی پھر بھی چاہتی ہے کہ میں خاموش رہوں، لیکن یہ میرے لیے کبھی بھی شرمندگی کا باعث نہیں، نہ کبھی ہوگی‘۔

دوسری جانب فریہا الطاف نے لکھا کہ ’6 سال کی عمر میں میرے باورچی نے مجھے جنسی طور پر ہراساں کیا، میرے والدین نے ایکشن لیا لیکن سب خاموش رہے، جیسے اس کی شرمندگی میرے نام ہوگی، 34 سالہ کی عمر میں مجھے احساس ہوا کہ اس کا میری زندگی پر کتنا بُرا اثر پڑا، اصل شرمندگی صرف خاموش رہنے میں ہے‘۔

ڈیزائنر ماہین خان نے بھی اپنی کہانی شیئر کرتے ہوئے ٹوئٹ کی کہ ’گھر آکر قرآن پڑھانے والے مولوی نے مجھے جنسی طور پر ہراساں کیا، اور میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ڈر کے مارے کچھ نہیں کرپاتی تھی، ہم سب کو بچوں کے سپورٹ کے لیے آواز اٹھانی چاہیے‘۔

خیال رہے کہ 4 جنوری کو شہر قصور میں 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس:پانچ روز گرزنے کے باوجود پیش رفت نہ ہوسکی

جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت اس کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا اور لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھیں کہ بچی کو قتل کرنے سے قبل مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔