کیا آپ کائنات میں موجود قدرتی دور بینوں کے بارے میں جانتے ہیں؟
سائنسدان صدیوں سے کائنات کی ابتدا اور انتہا کو کھوجنے کی کوششیں کررہے ہیں مگر اب تک یہ ان کے لیے کسی راز سے کم نہیں، جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ایسی نئی معلومات سامنے آجاتی ہے جو اس معمے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔
کائنات کی نومولود صورت کیسی تھی؟ سائنسدان سالوں سے اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہیں۔ اس غرض سے 1990 میں انہوں نے ہبل دوربین زمین کے گرد بھیجی، جس کے ذریعے وہ کائنات کے کئی سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے میں کامیاب تو ہوئے ہیں لیکن یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ ابھی بہت سے ایسے سوالات ہیں جن کا جواب ڈھونڈھنے کے لیے ہمیں کائنات کو مزید باریکی سے دیکھنا ہوگا۔ اگرچہ سائنسدان ایکس ریز، انفراریڈ اور الٹرا وائلٹ روشنیوں میں بھی کائنات کو دیکھ رہے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ ہبل سے مزید بڑی دوربین بنائی جائے جو کائنات کی ابتدا کی شفّاف تصویر دکھائے۔ مگر کیا ہو اگر ہبل سے لاکھوں گنا بڑی "قدرتی دوربینیں" کائنات میں موجود ہوں؟
جی ہاں، کائنات میں قدرتی دوربینیں بھی موجود ہیں جن کی مدد سے ہم دور دراز کی کہکشاؤں کا بھی پتا لگا سکتے ہیں۔ لیکن ان دوربینوں اور ہماری دوربینوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ ہماری دوربینوں میں شیشے استعمال کئے جاتے ہیں اور وہ دوربینیں کشش ثقل کا استعمال کرتی ہیں!!
عام لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ دوربین دور کی چیز کو قریب سے دیکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے لیکن کم ہی لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ دوربین کام کس طرح کرتی ہے۔
دوربین دو یا دو سے زائد شیشوں(لینسز) پر مشتمل آلہ ہے۔ جیسے ہی روشنی شیشوں میں سے گزرتی ہے تو شیشے میں موجود مادے کی وجہ سے ایک سیدھ برقرار نہیں رکھ پاتی اور مڑ جاتی ہے۔ اس کے بعد تمام روشنی کی شعائیں ایک نقطے پر آ کر ملتی ہیں جسے فزکس کی اصطلاح میں "فوکل پوائنٹ" کہتے ہیں۔
قدرتی دوربینوں کو سمجھنے کے لیے ہمیں مشہور زمانہ سائنسدان آئن سٹائن کے بنیادی نظریہ اضافیت کو سمجھنا ہوگا جس کے مطابق کائنات میں زمان و مکاں کی چادر موجود ہے اور جو جسم جتنا مادہ رکھتا ہے، وہ اتنا زیادہ اس چادر میں خم پیدا کرے گا۔ نظریہ اضافیت کے مطابق خم کے زیادہ ہونے کی وجہ سے اس جسم کی کشش بھی زیادہ ہوگی۔ روشنی جب اس جسم کے پاس سے گزرے گی تو کشش کی وجہ سے ایک سیدھ میں نہیں رہے گی اور مڑ جائے گی۔ لیکن چھوٹی جماعت سے بچوں کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ "روشنی ہمیشہ ایک سیدھ میں چلتی ہے اور کبھی اپنا راستہ نہیں بدلتی" تو کیا وہ غلط پڑھایا جاتا ہے؟ ہرگز نہیں! یہ بات سو فیصد درست ہے۔ نظریہ اضافیت کے مطابق، "روشنی زمان و مکاں کے حساب سے ایک سیدھ میں رہتی ہے لیکن اگر اس چادر میں زیادہ مادے سے پیدا ہونے والے خم کی وجہ سے موڑ آجائے تو روشنی بھی اس سے اپنی نسبت برقرار رکھتے ہوئے مڑ جاتی ہے۔
قدرتی دوربینوں کا بھی کچھ ایسا ہی طریقہ کار ہے جن سے ان کہکشاؤں کو دیکھا جاسکتا ہے جو کائنات کی گہرائیوں میں گم ہیں۔ ان دور دراز کی کہکشاؤں اور زمین کے درمیان دوسری(بڑی) کہکشاں ہوتی ہے جو لینس کا کام کرتی ہے۔ اس کہکشاں کی کشش دور سے آنے والی روشنی کو موڑ دیتی ہے اور وہ کہکشاں اس بڑی کہکشاں کے پیچھے ہونے کے باوجود اس کے گرد نظر آتی ہے۔
جب ماہر فلکیات آسمان میں ایسی کہکشاؤں کو دیکھتے ہیں تو انہیں اصل کہکشاں کے گرد کسی اور دور دراز کی کہکشاں کی دائروی شکل بھی دیکھنے کو مل جاتی ہے جس سے وہ حساب لگا لیتے ہیں کہ یہ دائرہ اس قریبی کہکشاں کا حصہ نہیں ہے بلکہ ایسی کسی دوسری کہکشاں کا ہے جو اس کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ چونکہ اس امر کی سب سے پہلے پیشنگوئی آئن سٹائن نے کی تھی اس لیے کہکشاؤں کی دائروی اشکال کو "آئن سٹائن رنگز" کا نام دیا گیا۔