پاکستان

’بلوچستان میں حالیہ سیاسی بحران کی وجہ کوئی سازش یا دباؤ نہیں‘

عام انتخابات میں وقت کم ہے, لہذا جو کچھ ہوا، اس کی وجہ باقی لوگوں کو وقت دینا ہے، تجزیہ کار امجد شعیب

سینئر تجزیہ کار جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا ہے کہ بلوچستان میں حالیہ سیاسی بحران کی وجہ کوئی سازش یا دباؤ نہیں، بلکہ یہ خود ان کا اپنا آپس کا کھیل ہے، تاکہ عام انتخابات سے پہلے دوسرے لوگوں کو بھی حکومت کرنے کا وقت مل سکے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'دوسرا رُخ' میں گفتگو کرتے ہوئے امجد شعیب کا کہنا تھا کہ اب عام انتخابات میں وقت کم ہے اور جو کچھ ہوا، اس کی وجہ باقی لوگوں کو بھی وقت دینا ہے اور اسی لیے لیگی اراکین نے ایک کمزور شخص کو وزیراعلیٰ کے طور پر آگے لانے کے لیے ووٹ دیا۔

انہوں نے بلوچستان کے سیاسی حالات کے پیچھے کسی بھی سازش یا دباؤ کے تاثر کو سختی سے رد کرتے ہوئے واضح کیا کہ گذشتہ چند ماہ سے ایک ہی بات کی جارہی ہے اور اشارے صرف ملکی اداروں کی جانب ہوتے ہیں، جس کا مقصد صرف اپنی ناکامی کو پسِ پردہ رکھنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جن لوگوں کا خیال تھا کہ بلوچستان میں عدم اعتماد کی تحریک کی وجہ مسلم لیگ (ن) کے اراکین پر دباؤ ہے تو انہیں چاہیے کہ پھر ادارے کا نام بھی لیں جن سے ان کو خطرہ محسوس ہورہا ہے، تاکہ عوام کو بھی معلوم ہوسکے کہ آخر سازش کی باتوں کے پیچھے اصل حقائق کیا ہیں'۔

مزید پڑھیں: میر عبدالقدوس بزنجو بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ بن گئے

امجد شعیب نے کہا کہ ثناء اللہ زہری کی مخالفت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دورہِ اقتدار میں بلوچستان کو کبھی وقت ہی نہیں دیا اور زیادہ تر ان کی مصروفیات لندن یا پھر کراچی میں رہتی تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ ساڑے چار سال میں حکومت نے اپنی خامیوں اور غلطیوں کو پسِ پردہ رکھنے کی خاطر میڈیا پر آکر سازشوں اور دباؤ کے تاثر کو جنم دیا، جس کا حقیقت سے ذرا بھی کوئی تعلق نہیں اور انہیں معلوم ہے جس دن انہوں نے نام لے کر بات کی تو پھر دوسری جانب سے کافی سخت جواب آئے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک مسئلہ سرکاری ملازمتوں کا بھی رہا ہے، کیونکہ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ سابق وزیراعلیٰ ہر ایک کو پیسے لے کر ملازمت دیا کرتے تھے اور ابھی بھی بے شمار آسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں، لہذا اس سیاسی تبدیلی ایک وجہ یہ بھی ہے، کیونکہ یہ بات بھی سب ہی جانتے ہیں کہ جتنی کرپشن بلوچستان میں ہے، وہ پاکستان کے کسی اور صوبے میں نہیں ہے۔

امجد شعیب نے کہا کہ اس پورے کھیل میں صرف اس بات کو سامنے رکھا گیا کہ آئندہ معلوم نہیں کس کی حکومت ہو تو پہلے ہی کچھ سیاسی تبدیلیاں کی جائیں جس سے اور لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات اس طرح بھی واضح ہوجاتی ہے کہ صوبائی کابینہ کے باقی تمام لوگ وہی ہیں جو پہلے تھے صرف وزیراعلیٰ کو تبدیل کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز پاکستان مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے رکنِ صوبائی اسمبلی عبدالقدوس بزنجو واضح اکثریت کے ساتھ بلوچستان کے نئے وزیرِ اعلیٰ منتخب کیے گئے جبکہ سرفراز بگٹی سمیت 14 رکنی نئی کابینہ نے بھی حلف اٹھایا۔

اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید درانی کی سربراہی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے اجلاس منعقد ہوا جس میں مسلم لیگ (ق) کے امیدوار میر عبدالقدوس بزنجو اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے امید وار آغا لیاقت کے درمیان مقابلہ ہوا۔

واضح رہے کہ بلوچستان اسمبلی میں کُل 65 نشستیں ہیں جبکہ وزارتِ اعلیٰ کے منصب کے لیے امیدوار کو 35 اراکین کے ووٹ درکار ہوتے ہیں تاہم میر عبدالقدوس بزنجو نے 41 اور سید لیاقت علی آغا نے 13 ووٹ حاصل کیے۔

یاد رہے کہ 2013 سے موجودہ حکومت کے دوران میر عبدالقدوس بزنجو بلوچستان کے تیسرے وزیرِ اعلیٰ ہیں جبکہ ان سے قبل نواب ثناء اللہ زہری اور عبدالمالک بلوچ بھی وزارتِ اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔

نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے بعد 14 رکنی نئی کابینہ کا بھی انتخاب عمل لایا گیا جن میں سابق وزیرداخلہ سرفراز بگٹی بھی شامل ہیں۔

میرعبدالقدوس بزنجو کی کابینہ میں میر سرفراز احمد بگٹی، طاہر محمود خان، سردار سرفراز خان ڈومکی، نواب چنگیز خان مری، راحت جمالی، عبالمجید ابڑو، میر عاصم کرد گیلو، عامر رند، غلام دستگیر بادینی، محمد اکبر عسکانی، شیخ جعفر خان مندوخیل، سید محمد رضا، منظور احمد کاکڑ اور پرنس احمد علی شامل ہوگئے ہیں۔

واضح رہے کہ رواں ماہ وزیراعلی بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف اسمبلی سیکریٹریٹ میں مسلم لیگ (ق) کے رکن اسمبلی اور سابق ڈپٹی اسپیکر عبدالقدوس بزنجو نے تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائی تھی۔

سابق وزیرِاعلیٰ بلوچستان نے اپنے خلاف بلوچستان اسمبلی میں جمع ہونے والی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے نواز شریف سے مدد مانگی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 'بلوچستان کے سیاسی بحران کا اثر سینیٹ انتخابات پر نہیں ہوگا'

سابق وزیرِاعظم نواز شریف نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو سازش قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ سب سینیٹ کے انتخابات کو رکوانے کے لیے کیا جارہا۔

مذکورہ تحریک عدم اعتماد کے خلاف بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت پشتونخواملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے وزیر اعلیٰ کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہم اپنے اصولوں پر قائم ہیں اور اپنے اتحادیوں سے تعاون کریں گے'۔

بلوچستان کے سیاسی حالات اس وقت مزید سنگین ہوگئے جب سابق وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی کی قیادت میں درجن بھر سے زائد مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ناراض اراکینِ اسمبلی نے بھی اس تحریک کی حمایت کرنے کا اعلان کیا۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نواب ثناءاللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والے مسلم لیگ (ن) کے ناراض قانون سازوں کو منانے کے لئے کوئٹہ کا ہنگامی دورہ بھی کیا جو ناکامی سے دوچار ہوگیا تھا۔

اپنے دورے کے دوران وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ناراض ارکان کو منانے میں ناکامی کے بعد نواب ثناء اللہ زہری کو وزارتِ اعلیٰ کے عہدے سے مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تھا۔

خیال رہے کہ نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف 9 جنوری کو بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جانی تھی تاہم انہوں نے اس تحریک کے پیش ہونے سے قبل ہی وزارتِ اعلیٰ کے منصب سے استعفیٰ دے دیا تھا۔