نقطہ نظر

ارفع کریم: جو کمسن مگر علم و ذہانت کا بھرپور خزینہ تھی

میری شہزادی ہم تمہارے نام ایک ’ارفع ٹیکنالوجی پارک‘ کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرپائے، بھلا ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟

وہ 2 فروری 1995 کی ایک بہت ہی نِکھری نِکھری، اجلی اور خوشگوار صبح تھی، جب پنجاب کے شہر فیصل آباد کے مضافات میں واقع سبزے سے ڈھکے چک رام دیوالی کے ایک چھوٹے سے گھر میں ستارہ آنکھوں والی بچی نے ماں کی آغوش میں پہلی دفعہ آنکھ کھولی تھی۔

اس بچی کی بڑی بڑی غلافی آنکھوں سے ذہانت چھلک پڑنے کو بیتاب تھی، اس کی فراخ پیشانی پر پیدائشی اک مہر لگی ہوئی تھی، وہ ایک غیرمعمولی ذہانت کی حامل بچی تھی، جو انسانوں کی مانند 16 برس ہم میں جیتی رہی، مگر اپنے عزم، حوصلے، عمل اور جذبے سے دنیا کو یہ باور کرا گئی کہ اگر مواقع میسر ہوں تو پاکستان کی خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں، جنہیں عموماً ہانڈی چولہے اور اور جھاڑو کا ایکسپرٹ سمجھا جاتا ہے۔

چک رام دیوالی میں کِھلنے والا یہ پھول چند برسوں بعد مائیکروسافٹ ہیڈکوارٹرز تک اپنی خوشبوئیں بکھیر رہا تھا، بلاشبہ ارفع کریم پریوں کی داستانوں اور رومانوی ناولز میں جی کر زندگی گزارنے والی ’ایوریج‘ پاکستانی لڑکیوں کے لیے ایک رول ماڈل تھی، جن کی زندگی اصل مفہوم سے آشنا ہی نہیں ہو پاتی۔

پڑھیے: پاکستان کی 12 باصلاحیت خواتین

ارفع کریم صرف بل گیٹس کی ’شہزادی‘ نہ تھی، بلکہ پوری پاکستانی قوم کا فخر تھی، وہ اپنے گھر یا خاندان کی آنکھوں کا تارہ ہی نہ تھی بلکہ ہر پاکستانی عورت کا غرور تھی، اس کی پوری زندگی مجھ جیسی ہزاروں پاکستانی لڑکیوں کے لیے بلاشبہ ایک ’فیری ٹیل‘ ہے، کہ جن کے پاس بہت کچھ کر دکھانے کا عزم تو ہے، مگر ہمارے پیروں میں مجبوریوں کی آہنی بیڑیاں ہیں، جن کو توڑ کر آگے بڑھنا ہمارے لیے فی الوقت ممکن نہیں۔

ارفع، کرنل امجد کریم رندھاوا کے گلشن میں کھلنے والا پہلا پھول تھی، چند سال بعد جب اس کا بھائی اس دنیا میں آیا تو یہ ننھی گڑیا، اس وقت تک بہت سمجھدار ہوچکی تھی، وہ دیگر بچوں کی طرح کھلونوں سے کھیلنا پسند نہیں کرتی تھی، اس کی ساری عادات سب سے الگ اور انوکھی تھیں۔

2 برس کی عمر میں اس نے کمپیوٹر میں دلچسپی لینا شروع کی، کچھ عرصے تک وہ ایک دوسرے کو سمجھتے اور پرکھتے رہے، اور یوں ارفع کریم کی کمپیوٹر سے دوستی کی بنیاد پڑی جو وقت کے ساتھ بڑھتے بڑھتے اس کا جنون بن گئی، وہ عمر جس میں لڑکیاں گڈے اور گڑیوں کی شادی رچایا کرتی ہیں، وہ اس عمر میں اسکول کی تعلیم کے ساتھ کمپیوٹر ٹریننگ کا باقاعدہ آغاز کر چکی تھی۔

اس کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے، اس کے ٹرینرز بھی اسے بھرپور توجہ اور زیادہ ٹائم دیتے رہے، اور یوں محض 9 برس کی عمر میں ارفع کریم نے زندگی کا ایک سنگ میل عبور کرتے ہوئے دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائڈ پروفیشنل کا اعزاز حاصل کرلیا۔

—فوٹو: پنٹریسٹ

یہ ریکارڈ دنیا بھر کے نوجوانوں اور بچوں کے لیے ایک زبردست تحریک ثابت ہوا، بہت سے بچے اسے چیلنج سمجھ کر کمپیوٹر کی فیلڈ میں آئے، اور 4 سال بعد 2008 میں 9 برس 27 دن کے بابر اقبال اس ریکارڈ کو توڑنے میں کامیاب ہوئے، اور اب تک 8 سالہ شافع بھوتانی، 7 سالہ شایان اختر اور 5 سالہ ایان قریشی (2014) یکے بعد دیگرے اس ریکارڈ کو توڑنے کا کارنامہ سر انجام دے چکے ہیں۔

ارفع کریم صرف کمپیوٹر کی فیلڈ میں ہی کامیابی کے جھنڈے نہیں گاڑ رہی تھی، بلکہ وہ بہترین مقررہ، نعت خواں اور ایک اچھی شاعرہ بھی تھی، ایک طرف اس کے ذاتی کمرے کا شیلف ٹرافیوں، گولڈ میڈلز اور سرٹیفیکٹس سے بھرتا گیا، تو دوسری جانب عالمی اُفق پر بھی اس کی اچیومنٹس سب سے جدا تھیں، آئے روز اس کی وجہ سے پاک وطن کا نام عالمی سطح پر جگمگاتا نظر آنے لگا، 2005 میں اس کی غیر معمولی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے مائیکروسافٹ نے اسے ایک اعزاز سے نوازا، مائیکرو سافٹ کے بانی ’بل گیٹس‘ نے اسے ملاقات کے لیے اپنے ہیڈ کوارٹر مدعو کیا۔ اس وقت دنیا کے امیر ترین، ذہین اور نہایت سحر انگیز شخصیت کے حامل شخص کے سامنے بھی اس کم عمر بچی کا اعتماد دیدنی تھا، ایسی صورتحال میں جہاں بڑے بڑے کوالیفائڈ لوگوں کی زبانیں لڑکھڑا جاتی ہیں، وہاں بھی یہ 10 سالہ بچی بھرپور اعتماد کے ساتھ وہ پوائنٹس سامنے لاتی رہی کہ بل گیٹس بھی چند لمحوں کے لیے ہکا بکا ہو کر اسے دیکھتے رہ گئے۔

پڑھیے: چھ سالہ پاکستانی بچہ مائیکروسافٹ امتحان میں کامیاب

دنیا کے مایہ ناز اور بہترین کمپیوٹر سافٹ ویئر ادارے کا دورہ کرتے ہوئے بھی وہ انہی خواتین کے بارے میں سوچ رہی تھیں، جن کے لیئے وہ رول ماڈل بننا چاہتی تھی، یہ بل گیٹس اور ارفع کریم کی شارٹ ٹرم ریلیشن شپ کا آغاز تھا، اور دونوں کو پوری امید تھی وہ مستقبل میں اکھٹے بہت کچھ کر دکھائیں گے، مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

ایک برس بعد ارفع کریم کو مائیکرو سافٹ کی طرف سے بارسلونا میں منعقد ہونے والی ایک ٹیکنیکل ایجوکیشن کانفرنس میں رول ماڈل کے طور پر مدعو کیا گیا، جس کا عنوان تھا ’دنیا سے دو قدم آگے‘ اور بلاشبہ دنیا بھر سے شرکت کرنے والے مدوعین جن میں اکثریت سینیئر آئی ٹی پروفیشنلز کی تھی، میں ارفع کریم اپنی عمر سے بڑھ کر کام کرنے والوں میں سب سے آگے تھی، اس کے بعد بھی مائیکرو سافٹ ہی نہیں، کئی اور انٹرنیشنل ادارے مختلف فورمز پر ارفع کریم کو مدعو کرتے رہے اور ہر جگہ اپنے بھرپور اعتماد کے ساتھ ارفع اپنی پاک دھرتی کی نمائندگی کرتی رہی۔

بل گیٹس نے ارفع کریم کو خصوصی طور پر مدعو کیا تھا—فائل فوٹو: سوشل ویوز بلاگ

چند برس بعد اسے ایک بار پھر مائیکرو سافٹ کے ہیڈ کوارٹر بلایا گیا، تب تک اس کی صلاحیتیں کچھ اور نکھر کر سامنے آچکی تھیں، اور کئی فورمز سے اسے مسلسل آفرز آرہی تھیں کہ وہ بیرون ملک اپنی تعلیم مکمل کرے، مگر اس ننھی پری کا اپنے وطن سے رشتہ اٹوٹ تھا، جس مٹی سے اس کا خمیر اٹھا تھا، وہ جانتی تھی کہ پہلا حق اسی کا ہے، وہ یہیں اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے مستقبل کی پلاننگ کرتی رہی۔

ایک ننھی سی جان ایک ساتھ کئی محاذوں پر ڈٹی ہوئی تھی، اور آئندہ اس سے بڑھ کر کچھ غیر معمولی کر دکھانے کا عزم رکھتی تھی، پاکستان میں عموماً ٹیلنٹ کو آگے بڑھنے کے مواقع اور سہولیات کم ہی فراہم کی جاتی ہیں، مگر ارفع کریم اس لحاظ سے بھی ’ارفع‘ ہی رہی کیوں کہ اسے حکومتی سطح پر ہی نہیں بلکہ نجی سیکٹر سے بھی بھرپور پزیرائی حاصل ہوئی۔

ایک طرف وہ ایوان صدر کے معزز، معتبر اور سینئر مہمانوں میں صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی ’پرائڈ آف پرفارمنس‘ پانے والوں میں سب سے کم عمر تھیں، تو دوسری جانب ’سلام پاکستان ایوارڈ‘ اور ’فاطمہ جناح ایوارڈ آف ایکسیلنس ان سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘ جیسے اعزازات اس کے قد میں اضافہ کرتے چلے گئے۔

پڑھیے: پاکستان ’خواتین‘ کیلئے چوتھا بدترین ملک

وہ مختصر سی عمر میں ہی نوجوانوں کا ہیرو بن گئی تھی، اس کے نئے خیالات پر بہت سے محب وطن پاکستانی سرگرم ہوئے اور انہی میں سے ایک اچھوتا تصور انڈیا کی ’سیلیکون ویلی‘ کے طرز پر پاکستانی یوتھ کے لیے ایک ’ڈیجی کون ویلی‘ کا قیام تھا، اور اپنے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے وہ پوری طرح مستعد اور سرگرم تھی، اس کی ہمت، حوصلے، عزم اور اعلیٰ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے سب کو یقین تھا کہ یہ بچی کچھ نہ کچھ کر کے دکھائے گی، مگر ارفع کے پاس وقت بہت کم تھا، یہ تو عارضی پڑاؤ تھا، اسے جلد اپنی حقیقی منزل کو روانہ ہوجانا تھا۔

21 دسمبر 2011 کی ایک سرد رات کو ارفع کریم نے اپنی ماں سے سر میں درد کی شکایت کی تو انہوں نے اسے حد سے زیادہ پڑھائی اور کمپیوٹر استعمال کرنے پر سرزنش کرتے ہوئے میڈیسن دے کر آرام کرنے کے لیے لیٹا دیا، مگر اس رات وہ ایسی گہری نیند سوئی کہ پھر کبھی جاگ ہی نہ سکیں، اگلی صبح ہارٹ اٹیک اور برین ہیمبرج کے باعث بہت افراتفری میں اسے لاہور کے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال لے جایا گیا تو اس خبر نے پاکستان ہی نہیں ساری دنیا میں ارفع کے مداحوں پر تازیانہ گرا دیا، وہ ہم سب سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ کر خالق حقیقی سے جا ملیں۔

ڈاکٹرز کے مطابق ارفع کریم کا دماغ شدید متاثر ہوا تھا، اور پاکستان میں اس کا علاج ممکن نہ تھا، اور اس کے والدین فوری طور پراسے ملک سے باہر لے کر جانے کے وسائل نہیں رکھتے تھے۔

ہمارا فخر اور سرمایہ قوم ’ارفع کریم‘ 22 روز تک لاہور کے ہسپتال میں موت سے جنگ لڑتی رہی، پوری قوم اپنی اس ننھی پری کے لیے دعا گو تھی۔

ارفع کی حالت روز بروز گرتی جارہی تھی، اور وہ صرف لائف سیونگ مشین پر زندہ تھی، عین ممکن تھا، اگر اسے بیرون ملک علاج کے لیے لے جاتے تو وہ تب بھی نہ بچتی، کیونکہ موت تو بہرحال اپنے وقت پر آتی ہے، مگر کم سے کم دل کی یہ خلش یوں ناسور تو نہ بنتی کہ ہم بدنصیب اللہ تعالیٰ کے اس انمول تحفے کی صحیح طرح قدر نہیں کر پائے، اب اس جیسے کسی اور کی امید بھی کریں تو کیسے؟ کیوں کہ پریاں جب ایک دفعہ روٹھ کر اپنا راستہ بدل لیتی ہیں، تو پھر وہ دوبارہ ان راہوں پر نہیں لوٹا کرتیں، اگرچہ آخری دنوں میں بل گیٹس نے ارفع کریم کی حالت کو دیکھتے ہوئے نہ صرف اس کے لیے بہترین معالجین کا بندوبست کیا، بلکہ علاج کے تمام اخراجات کا بھی ذمہ لیا، مگر ارفع زندگی ہی اتنی لکھوا کر آئی تھی، وہ 14 جنوری 2012 کی رات ہم سب کے دلوں کو اداس کر ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہو گئی۔

اگر ایک ستارہ ڈوب جائے تو بہت جلد کوئی اور ستارہ اس کی جگہ لے لیتا ہے، کیوں کہ ستارے تو لافانی ہوتے ہیں، بے شک ارفع نے اپنی چھوٹی سی زندگی ایک شعلے کی طرح گزاری جو ہرسو اپنی روشنیاں بکھیرتا رہا، اور انشا ءاللہ اس کی تجلیاں بہت سوں کی تاریک راہوں کو منور کرتی رہی گی، لیکن مجھے ذاتی طور پر محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے بطور ایک قوم ارفع کریم کے لیے کچھ نہیں کیا.

میں ذاتی طور پر ارفع کریم سے بھی معذرت خواہ ہوں، میں اسے کہنا چاہتی ہوں کہ ارفع ہم بہت نکمے، گناہ گار اور لاپرواہ لوگ ہیں، تمہیں ہم سے بچھڑے 8 برس بیت چکے ہیں، مگر ہم تمہارے نام ایک ’ارفع ٹیکنالوجی پارک‘ کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرپائے، بھلا ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟ تمہارے وہ خواب جو تم پوری قوم کے لیے دیکھا کرتی تھی، آج بھی کسی مسیحا کی راہ تکتے ہیں۔ مگر مجھ سمیت تمام پاکستانی اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہیں ہیں وہ جو رحمٰن و رحیم ہے، اس کے کرم سے، ہم میں سے کوئی تمہارے عزائم کا بیڑہ اٹھائے گی یا پھر کبھی بھی کہیں نہ کہیں، پاکستان کے کسی کونے میں، کسی دیہات، چک، یا شہر میں کسی اور نام سے ایک اور ارفع جلد یا بدیر جنم لے کر تمہارے خوابوں کو ضرور پورا کرے گی۔

صادقہ خان

صادقہ خان کوئٹہ سے تعلق رکھتی ہیں اور نیشنل سائنس ایوارڈ یافتہ سائنس رائٹر ، بلاگر اور دو سائنسی کتب کی مصنفہ ہیں۔ صادقہ آن لائن ڈیجیٹل سائنس میگزین سائنٹیا کی بانی اور ایڈیٹر بھی ہیں۔ ۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے saadeqakhan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔