بھٹو کی آخری نشانی یعنی ’روح‘ پر بھی قبضہ ہوگیا
مجھے نئے سال کی آمد کے بعد سب سے پہلی، بڑی، بھیانک اور خطرناک خبر جو ملی وہ یہ تھی کہ آصف علی زرداری میں ذوالفقار بھٹو کی روح منتقل ہوگئی ہے۔ روح کا تصور کیسے، کب اور کہاں سے آیا، اِس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور مستقبل میں بھی کافی کچھ لکھا جائے گا۔
ہم زیادہ گہرائی اور باریکیوں کی طرف نہیں جاتے لیکن روح، روحانیت، جن بھوت اور بھٹتکی آتماؤں کے کئی دیو مالائی قصے، کہانیاں اور داستانیں صدیوں سے انسانی زندگی کا حصہ بنی ہوئی ہیں، پھر کئی بنگالی بابوں، جنگلی پیروں نے اِس میں اپنا ذریعہ معاش پالیا اور یوں اپنی روزی روٹی کی خاطر اِس بھوتیا کاروبار میں کود پڑے۔
دیکھتے ہی دیکھتے روحوں، جن بھوتوں اور معشوقوں پر قبضوں پر کاروبار عروج پر پہنچا۔ کئی لوگوں کے لیے معاش کا انتظام کرنے کے بعد روحیں اور بھوت بھیّا فلمی دنیا میں گھس آئے، ہولی ووڈ سے لے کر بولی ووڈ اور پھر پاکستانی فلموں اور ڈراموں میں روحیں جلوہ گر ہونے لگیں، لیکن اب انسانوں نے روحوں کو سیاسی میدان میں جگہ دے دی ہے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا یہ دعویٰ کوئی معمولی نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی روح اُن میں آگئی ہے، زرداری صاحب کے الفاظ کچھ اِس طرح تھے کہ،
’میں بھٹو صاحب ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا، لیکن یہ دعویٰ ضرور کرتا ہوں کہ مجھ میں بھٹو کی روح ہے۔‘
گویا بھٹو کی ’روح‘ وہ آخری چیز تھی جس کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا تھا، مگر اب اُس پر بھی آصف علی زرداری کی دعویداری سامنے آگئی ہے، بقول شخصے کہ روح پر بھی قبضہ ہوگیا۔ اِس سے پہلے بھٹو کی سیاست، ایک ملک گیر بڑی سیاسی جماعت، آبائی ملکیت و جائیداد، بھٹو کی ذات، نعرے، بھٹو کے شیدائی، جیالے، تمام کے تمام زرداری صاحب کے پاس آچکے تھے۔
مزید پڑھیے: بھٹو کی یاد
میرا ذاتی خیال ہے کہ بھٹو کی 90ویں سالگرہ کے موقع پر کسی نے زرداری صاحب کے کان بھر دیے کہ جناب یہ بھٹو صاحب کی روح ہی آخری چیز رہتی ہے اُس کو آپ نہیں تو اور کون سنبھالے گا؟ پھر ہوا کچھ یوں کہ زرداری صاحب نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، بھرے جلسے میں اعلان کردیا کہ اُن کے اندر بھٹو کی روح آگئی ہے۔ روح آنے کے بعد بھی آصف علی زرداری کی تقریر میں بھٹو والا جوش، جذبہ، عوامی رنگ کچھ نہیں تھا، نہ مائیک گرے، نہ نعرے لگے، بس وہی جھجھک اور بے رنگ سی تقریر، شاید روح ابھی نئی نئی ہے اِس لیے بھٹو جیسی تقریر کے لیے کچھ دن لگیں گے۔
روح کے آنے سے کئی تبدیلیاں واقع ہوسکتی ہیں۔ کیا پتہ اِسی روح کی بدولت زرداری صاحب کچھ دنوں میں اپنی اولاد کی طرح ’آصف علی بھٹو زرداری‘ کہلانے لگیں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ کچھ ہفتوں، مہینوں یا ایک دو سال روح کی سینیارٹی دیکھ کر آصف علی زرداری خود کو پورا کا پورا ذوالفقار بھٹو سمجھ بیٹھیں، اور کسی دن اسٹیج سے اعلان ہوکہ ہم نہ کہتے تھے کہ بھٹو زندہ ہے، لو جی میں ہوں بھٹو!
جس دن آصف زرداری نے خود میں بھٹو صاحب کی روح آنے کا اعلان کیا عین اُسی دن اُس جلسے میں ایک اور اہم اعلان بھی ہوا، اور یہ اعلان ترجمان بلاول ہاؤس نے کیا کہ
’آصف علی زرداری پاکستان کے نیلسن منڈیلا ہیں۔‘
منڈیلا کا مزار اُن کے آبائی گاؤں کونو میں موجود ہے، جبکہ شہید ذوالفقار بھٹو گڑھی خدا بخش میں مدفون ہیں۔ اب یہ پتہ نہیں کہ میرپور خاص والے جلسے کے دن اُن دونوں قبروں میں زیادہ بھونچال کہاں آیا، واضح رہے کہ ہم یہ بات نہیں کر رہے کہ نیلسن منڈیلا اور ذوالفقار بھٹو کی روحیں اُس دن تڑپ اُٹھی ہوں گی، کیونکہ اُن پر تو قبضہ ہوچکا ہے۔
زرداری صاحب کے اِس اعلان یا دعویداری پر کسی دوست کا یہ تبصرہ بھی ٹھیک ہی تھا کہ
’بھٹو صاحب کو اُن کی 90ویں سالگرہ پر اُن کے داماد کا پیار بھرا تحفہ تھا۔ لیکن ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر بھٹو صاحب آج ہوتے تو آصف زرداری کہاں ہوتے، اور بالکل اِسی طرح یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ بینظیر بھٹو بھی ہمارے بیچ ہوتیں تو زرداری صاحب کہاں ہوتے؟‘
سیاستدانوں میں کسی دوسرے کی روح کا سرائیت کرجانا نئی بات نہیں، کچھ اِس کا اعلان کردیتے ہیں اور کچھ اپنے اعمال سے ظاہر کردیتے ہیں۔ مثلاً میاں نواز شریف میں کس کی روح ہے؟ جی بالکل آپ کا جواب درست ہے، لیکن میاں صاحب اب اِس روح سے جان چھڑانے کے چکر میں ہیں، جسے چودھری نثار نے جَپھی پائی ہوئی ہے۔
سندھ میں ایک وزیرِ اعلیٰ کی روح دوسرے وزیرِ اعلیٰ میں رہ چکی ہے۔ جام صادق 90ء کی دہائی میں ایک صوبائی نشست جیت کر سندھ میں وائسرائے نما وزیراعلیٰ بن گئے، اُن کی نامزدگی کا مقصد ہی جیالوں کی شارٹ کٹنگ یعنی اُنہیں ٹف ٹائم دینا تھا۔ وہ آئے نہیں بلکہ اِس مقصد کے لیے اُنہیں لایا گیا تھا، اور پھر جام صادق نے چُن چُن کر جیالوں کو رگڑ کر رکھ دیا۔ اگر یہ کہا جائے تو ہرگز غلط نہیں ہوگا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کا جو کارکن جیل نہیں گیا وہ اُس دور میں تھانے ضرور گیا ہوگا۔
مزید پڑھیے: بھٹو کی روح اور پیپلز پارٹی
اُن کی وفات کے بعد 2000ء کے عشرے میں اُن کی روح دوسرے وزیرِ اعلیٰ ارباب غلام رحیم میں داخل ہوگئی، جس کا اعلان یا دعویٰ موصوف نے خود ایک بھرے جلسے میں کیا تھا۔ ارباب رحیم صاحب تو جلسوں میں یہ بھی کہا کرتے تھے کہ مجھے جنرل یوسف قائمخانی نے وزیرِ اعلیٰ بنایا ہے۔ جنرل یوسف، پرویز مشرف کے دور میں ڈپٹی آرمی چیف ہوا کرتے تھے۔ ارباب نے جام صادق کی روح کو ایصالِ ثواب پہنچانے کی خاطر جیالوں سے وہی سلوک کیا جو جام صاحب نے کیا تھا۔ جام صادق کی روح تو ارباب رحیم میں میچ کرگئی لیکن بھٹو صاحب کی روح آصف زرداری میں کیسی آگئی؟ سہیل وڑائچ ہوتے تو یہ سوال ضرور کرتے کہ، کیا یہ کُھلا تضاد نہیں؟
ویسے اِس دعویٰ میں فنی نوعیت کے کچھ سوالات، معاملات، تحفظات، خدشات اور کچھ رُکاوٹیں باقی ہیں، وہ رُکاوٹیں عبور کرنے کے بعد اِس دعویٰ کو سچ ماننے پر غور و غوص کیا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلا اعتراض یہ کہ پیپلز پارٹی کا بنیادی نعرہ ہی زندہ ہے بھٹو زندہ کا ہے، اِس نعرے پر ووٹ لے کر 5 برس وفاق پر حکومت کی اور 10 برس سندھ پر حُکمرانی کر رہی ہے، تو سوال یہ ہے کہ جب بھٹو صاحب خود زندہ ہیں تو پھر یہ کس کی روح کو بھٹو کی روح بنا کر دعویٰ کیا جارہا ہے؟ عوام سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کسی اور روح سے وصیت (وِل) والا کام تو نہیں ہوا؟ اگر زرداری صاحب پھر بھی نہیں مانتے تو مناسب یہ ہے کہ یا تو پیپلز پارٹی ’بھٹو زندہ ہے‘ کا نعرہ ترک کرے یا پھر اِس روح کو آزاد کروائے۔
اب دوسرے سیاسی تضاد پر بات ہوجائے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو جس نے سیاست کو پیروں کی گدیوں، وڈیروں کی خوابگاہوں، نوابوں کے ڈیروں، سرداروں کے بنگلوں اور بڑے بڑے ڈرائنگ رومز سے نکال کر گلی کوچوں میں عوام کے پاس لے کر آئے، وہ بھٹو جس نے عوام کو زبان دی، عوام کو ووٹ کا حق دیا، اُس بھٹو کی روح کو ضرورت کیا کہ وہ اُس جسم کا انتخاب کرے جو عوامی سیاست کو پھر ڈرائینگ روم کی زینت بنا دے؟
بھٹو ایک دور میں ’اقتدار اور کُرسی کو لات مار کر‘ عوام میں آیا تھا، لیکن اُن کی روح کی دعویداری کرنے والے تو عوام کے کاندھوں پر چڑھ کر ایوانِ صدر میں پانچ برسوں تک عوام سے کٹ کر بیٹھ گئے۔ یہاں جس کی روح کی بات ہو رہی ہے اُس نے تو سیاست میں ایسی کَھل بلی مچائی کہ پیپلز پارٹی کراچی سے کشمیر تک پہنچ گئی، لیکن اب پیپلز پارٹی کی حالت سب کے سامنے ہے، اور اُسی بھٹو کی پارٹی کو تو اِس وقت کراچی میں بھی نشستیں نکالنے میں مُشکلات درپیش ہیں۔
آج پیپلز پارٹی کے وجود کو سندھ سے باہر یعنی پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خطرات لاحق ہیں۔ سندھ کی حکمرانی پر سمجھوتا کرنے والی آج کی پیپلز پارٹی آگے کیا سوچ رہی ہے وہ تو سب کو معلوم ہے، لیکن بھٹو کی روح پر دعویداری جتانے سے پہلے لاڑکانہ کے 90 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز کا حساب بھی اُس روح کو دینا چاہیے اور ملک کے پیرس لاڑکانہ کی تازہ ترین تصاویر بھی آویزاں کرنی چاہئیں۔
اور لاڑکانہ ہی کیوں؟ پورے سندھ کا کوئی ایک شہر اور اُس کا میونسپل نظام مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے؟ گزشتہ حکومت یعنی 5 سال وفاق میں رہتے ہوئے بھٹو صاحب کی بنائی ہوئی پارٹی نے زرداری صاحب کی سربراہی میں جو کچھ کیا اُس کا نتیجہ عام انتخابات میں مل چکا، اور آنے والے انتخابات کے نتائج بھی کچھ مختلف معلوم نہیں ہورہے۔
بھٹو صاحب کا نعرہ تو موجود ہے، روح بھی آگئی لیکن جماعت میں نہ بھٹو کا منشور نہ فکر، نہ پروگرام اور نہ ہی اُن کی دانش، بس عوام کا کاندھا ہے، سیاست کی سیڑھی ہے، جھوٹے وعدے ہیں، جھانسے ہیں اور تمام راستوں کا اختتام ایوانِ اقتدار پر ہوتا ہے۔ اِس کے لیے اقدار، اصول سب کچھ پیچھے رہ گیا۔
اب تو پیپلز پارٹی پر ایسا وقت آگیا ہے کہ بھٹو کی روح کے دعویدار کے سامنے طاہر القادری بھی اِس دور کے نوابزادہ نصراللہ بن چکے ہیں، یہ وہ تیسری روح ہے جو اِن دنوں تڑپ اُٹھی ہوگی۔ طاہر القادری صاحب کسی تعارف کے مُحتاج نہیں، ماڈل ٹاؤن سانحے سے پہلے بھی منتخب حکومتوں کو گرانے کی ہر کوشش میں انہوں نے ہی سب سے پہلے اپنا کاندھا پیش کیا۔
یہی نہیں بھٹو کی روح رکھنے والی قیادت آج کل قادری صاحب کے ساتھ شیخ رشید، پرویز الٰہی، جمشید دستی کو جمہوری خدمات کے عوض سرٹفکیٹ دینے کی تیاری میں ہے۔ سیاسی چال بازی، مفاہمت کے نام پر مفادات کی سیاست، ناقص حکمرانی، کک بیک، کمیشن، اقرباء پروری اور ذاتی پسند ناپسند کے اِس جہاں میں بھٹو کی روح کو نہ گھسیٹا جائے تو ہی بہتر ہے۔
اور آخری بات یہ کہ آصف علی زرداری تو خود اپنا جسم عطیہ کرچکے ہیں، تو اُن کے جانے کے بعد پھر بھٹو کی روح کا کیا بنے گا؟ لہٰذا گزارش یہی ہے کہ بھٹو کی روح کو آزاد کردیا جائے اِس سے پہلے کہ پیپلز پارٹی کے اندر سے آواز آنے لگے کہ نہ کھپے! نہ کھپے! ایسا دعویٰ نہ کھپے!
مصنف سچل آرٹس اینڈ کامرس کالج حیدرآباد میں لیکچرر ہیں، اسلام آباد میں صحافت کا پندرہ سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں، سندھی اور اردو زبان میں ایک ہزار سے زائد مضامین تحریر کر چکے ہیں۔
ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: kumbharibrahim@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔