پاکستان

میر عبدالقدوس بزنجو بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ بن گئے

میرعبدالقدوس بزنجو 2013 کے انتخابات میں صرف 544 (حلقے کے ایک فیصد سے بھی کم) ووٹ لے کر رُکن اسمبلی بنے تھے۔
|

کوئٹہ: پاکستان مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے رکنِ صوبائی اسمبلی عبدالقدوس بزنجو واضح اکثریت کے ساتھ بلوچستان کے نئے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوگئے جبکہ سرفراز بگٹی سمیت 14 رکنی نئی کابینہ نے بھی حلف اٹھا لیا۔

اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید درانی کی سربراہی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے اجلاس منعقد ہوا جس میں (ق) لیگ کے امیدوار میر عبدالقدوس بزنجو اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے امید وار آغا لیاقت کے درمیان مقابلہ ہوا۔

خیال رہے کہ بلوچستان اسمبلی میں کُل 65 نشستیں ہیں جبکہ وزارتِ اعلیٰ کے منصب کے لیے امیدوار کو 35 اراکین کے ووٹ درکار ہوتے ہیں تاہم میر عبدالقدوس بزنجو نے 41 اور سید لیاقت علی آغا نے 13 ووٹ حاصل کیے۔

اسپیکر صوبائی اسمبلی راحیلہ درانی نے میر عبدالقدوس بزنجو کو بلوچستان کا نیا وزیرِ اعلیٰ منتخب ہونے پر مبارک باد پیش کی۔

یاد رہے کہ 2013 سے موجودہ حکومت کے دوران میر عبدالقدوس بزنجو بلوچستان کے تیسرے وزیرِ اعلیٰ ہیں جبکہ ان سے قبل نواب ثناء اللہ زہری اور عبدالمالک بلوچ بھی وزارتِ اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔

بلوچستان اراکینِ اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 21، پی کے میپ کے 14، نیشنل پارٹی (این پی) کے 11، جمیعت علمائے اسلام (ف) کے 8، مسلم لیگ (ق) کے 5، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے 2، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، بی این پی عوامی، مجلس وحدت المسلمین کے ایک ایک رکن موجود ہیں جبکہ ایک آزاد رکن اسمبلی بھی ایوان کا حصہ ہیں۔

یاد رہے کہ یکم جنوری 1974 کو پیدا ہونے والے میر عبدالقدوس بزنجو کا تعلق بلوچستان کے پسماندہ ضلع آواران سے ہے جبکہ ان کے والد اور سینئر سیاستدان میر عبدالمجید بزنجو بھی بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رہ چکے ہیں۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: وزیراعلیٰ کا انتخاب، 6 لیگی اراکین مخالف صفوں میں شامل

2013 کے عام انتخابات میں بلوچستان کے حلقہ ’پی بی 41‘ میں ووٹوں کا ٹرن آؤٹ 2 فیصد سے بھی کم رہا تھا اور میر عبدالقدوس بزنجو صرف 544 (ایک فیصد سے بھی کم) ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے۔

—فوٹو:ڈان نیوز

نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے بعد 14 رکنی نئی کابینہ کا بھی انتخاب عمل لایا گیا جن میں سابق وزیرداخلہ سرفراز بگٹی بھی شامل ہیں۔

میرعبدالقدوس بزنجو کی کابینہ میں میر سرفراز احمد بگٹی، طاہر محمود خان، سردار سرفراز خان ڈومکی، نواب چنگیز خان مری، راحت جمالی، عبالمجید ابڑو، میر عاصم کرد گیلو، عامر رند، غلام دستگیر بادینی، محمد اکبر عسکانی، شیخ جعفر خان مندوخیل، سید محمد رضا، منظور احمد کاکڑ اور پرنس احمد علی شامل ہوگئے ہیں۔

حمایت کرنے پر سیاسی جماعتوں کا مشکور ہوں، عبدالقدوس بزنجو

نو منتخب وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے ایوان میں اپنی تقریر کے دوران ان کی حمایت کرنے والی صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں کا شریہ ادا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ان کی حمایت کرنے اور اس مہم کے دوران ساتھ دینے میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے بے حد مشکور ہیں۔

نو منتخب وزیراعلیٰ نے کہا ’تمام سیاسی جماعتوں نے میرا بہت ساتھ دیا اور ارکان اسمبلی نے جمہوری عمل کو آگے بڑھایا ہے۔‘

میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا جبکہ وزیراعلیٰ بننا ان کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ صوبے میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی غیر جمہوری عمل نہیں، اور نہ ہی ان کا نواب ثناء اللہ زہری سے کوئی ذاتی اختلاف ہے وہ قابل احترام ہیں۔

گورنر ہاؤس بلوچستان میں ہونے والی حلف برداری کی تقریب میں گورنر محمود خان اچکزئی نے نو منتخب وزیرِ اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو سے حلف لیا جبکہ ان کے ساتھ ان کی 14 رکنی کابینہ نے بھی حلف اٹھا۔

تحریک عدم اعتماد اور ثناءاللہ زہری کا استعفیٰ

واضح رہے کہ رواں ماہ وزیراعلی بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف اسمبلی سیکریٹریٹ میں مسلم لیگ (ق) کے رکن اسمبلی اور سابق ڈپٹی اسپیکر عبدالقدوس بزنجو نے تحریکِ عدم اعتماد جمع کراتھی۔

تحریک عدم اعتماد میں وجوہات پر اظہار خیال کرتے ہوئے عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ ملازمتوں میں مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کے ارکان کو نظر انداز کیا گیا ہے اس کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں میں بھی ان 14 ارکان کو نظر انداز کیا گیا۔

عبدالقدوس بزنجو کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی جبکہ ہمارے مسائل اب تک حل نہیں ہوسکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'بلوچستان کے سیاسی بحران کا اثر سینیٹ انتخابات پر نہیں ہوگا'

سابق وزیرِاعلیٰ بلوچستان نے اپنے خلاف بلوچستان اسمبلی میں جمع ہونے والی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے نواز شریف سے مدد مانگی تھی۔

سابق وزیرِاعظم نواز شریف نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو سازش قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ سب سینیٹ کے انتخابات کو رکوانے کے لیے کیا جارہا۔

مذکورہ تحریک عدم اعتماد کے خلاف بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت پشتونخواملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے وزیر اعلیٰ کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہم اپنے اصولوں پر قائم ہیں اور اپنے اتحادیوں سے تعاون کریں گے'۔

بلوچستان کے سیاسی حالات اس وقت مزید سنگین ہوگئے جب سابق وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی کی قیادت میں درجن بھر سے زائد مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ناراض اراکینِ اسمبلی نے بھی اس تحریک کی حمایت کرنے کا اعلان کیا۔

مزید پڑھیں: ثنااللہ زہری نےمستعفی ہو کر اسمبلی تحلیل ہونے سے بچائی، تجزیہ کار

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نواب ثناءاللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والے مسلم لیگ (ن) کے ناراض قانون سازوں کو منانے کے لئے کوئٹہ کا ہنگامی دورہ بھی کیا جو ناکامی سے دوچار ہوگیا تھا۔

اپنے دورے کے دوران وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ناراض ارکان کو منانے میں ناکامی کے بعد نواب ثناء اللہ زہری کو وزارتِ اعلیٰ کے عہدے سے مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تھا۔

خیال رہے کہ نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف 9 جنوری کو بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جانی تھی تاہم انہوں نے اس تحریک کے پیش ہونے سے قبل ہی وزارتِ اعلیٰ کے منصب سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

بعدِ ازاں 11 جنوری کو سینئر لیگی رہنما اور سابق سینیٹر سعید احمد ہاشمی کی رہائش گاہ پر اہم اجلاس ہوا جس میں مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کے ارکان کی بڑی تعداد نے شرکت کی جہاں نئے وزیر اعلیٰ کے لیے سابق صوبائی ڈپٹی اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کے نام پر اتفاق کرلیا گیا تھا۔