‘پچھتاوے‘ کے بجائے ’زخم‘ کی راہ کا انتخاب کیجیے، کیونکہ ...
زندگی کا سب سے اذیت ناک سفر کاش کا سفر ہوتا ہے، جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی مگر پھر بھی آپ کو تاعمر چلتے رہنا پڑتا ہے، کجا اِس بات کے آپ کتنے ہی تھک جائیں، کتنے ہیں ٹوٹ جائیں، کیسے ہی گر جائیں، یہ سفر ختم نہیں ہوتا۔
ایک پرانی، ایکسپائرڈ چاکلیٹ اور ایک معطر، رنگین رقعے نے اِسے صدا کے لیے کاش کا مسافر بنا ڈالا تھا۔ وہ حسرت سے آج بھی وہ چاکلیٹ اور وہ پرچی اپنے پاس رکھتا ہے اور ہر بار یہ سوچتا ہے کہ کاش وہ اُسے اپنی محبوبہ کو دے ڈالتا، کاش وہ اُس سے اپنی محبت کا اظہار کردیتا۔ کاش وہ ٹھکرائے جانے کے ڈر سے پیچھے نہ ہٹتا۔ کاش اُس کی جستجو سچّی ہوتی اور کاش وہ اپنی محبت کا حق ادا کرلیتا، کاش!
میرے پاس دو طرح کے لوگ آتے ہیں، ایک وہ جن کے دل زخمی ہوتے ہیں، جن کی روح زخمی ہوتی ہے، جنہوں نے دل پر چوٹ کھائی ہوتی ہے اور ایک وہ جن کا سارا پیکر پچھتاوے کی بھٹی میں جل رہا ہوتا ہے۔ یہ سر تا پاؤں ایک سرد آہ ہوتے ہیں، ہاتھ مَلتے، خالی آنکھیں لیے، ڈوبتے دل، کٹتے کلیجے کے ساتھ ’کاش‘ کی آگ میں جل رہے ہوتے ہیں۔ یہ اپنی متاعِ کل کے عوض صرف ایک اور موقع مانگتے ہیں کہ کسی طرح اُنہیں وہ لمحہ پھر میسر آجائے جو اُنہیں اِس کاش کے چُنگل سے آزاد کردے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔
پڑھیے: قدرت کے اشاروں کو سمجھیے اور اپنا ٹیلنٹ پہچانیے
آپ زندگی میں کبھی ایسے مقام پر آ کھڑے ہوں جہاں آپ کو ’پچھتاوے‘ اور ’زخم‘ میں سے صرف ایک کا انتخاب کرنا ہو تو بنا سوچے، ’زخم‘ کا ہی انتخاب کرنا اور پچھتاوے سے بچ جانا، کیونکہ ’زخم‘ بھر جاتے ہیں لیکن ’پچھتاوے‘ مار دیتے ہیں۔
دل تڑوا بیٹھنا، روح کو درد سے آشنا کرلینا شاید زیادہ خوفناک ہوتا ہے مگر وقت کے ساتھ یہ دل کے زخم بھر جاتے ہیں، یہ انسان کو بہت بڑا بنا دیتے ہیں، یہ اندھیر کمرے کی اُس کھڑکی کی مانند ہوتے ہیں جہاں سے روشنی اندر آتی ہے۔ جبکہ پچھتاوے، عمر بھر کا روگ بن جاتے ہیں، یہ انسان کو وقت سے پہلے بوڑھا کردیتے ہیں، بے وقعت کردیتے ہیں اور سچ کہوں تو ذلیل کر چھوڑتے ہیں۔
پچھتاوے ہمیشہ شکست خوردہ لوگوں کے ہاتھ آتے ہیں، بزدلوں کے، کم ظرفوں کے، جو اناؤں کے خول میں قید رہتے ہیں، جن کی جستجو سچّی نہیں ہوتی، جو سیکھتے نہیں، اپنی ذات کے دائرے سے باہر نہیں آتے، قیمت ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے، جانتے بوجھتے ہوئے، اپنی ضرورت بھانپتے ہوئے بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
پچھتاوے اُن کے دل گیر رہتے ہیں جو وقت کی وقعت کو، موقع کی ضرورت کو جانتے بوجھتے ہوئے فراموش کردیتے ہیں، اُن کے نصیب میں کاش لکھ دیا جاتا ہے اور یہ تمام عمر اُسی میں جلتے رہتے ہیں۔
مگر زخم بڑے دل والوں کے ہاتھ آتے ہیں۔ اُن کے ہاتھ جن پر قدرت ناز کرتی ہے، جنہیں زندگی اپنی قبا میں چھپے وہ حسین اور دلکش راستے دکھانے پر رضامند ہوتی ہے جن کے مسافروں کے دم سے یہ دنیا روشن ہے۔ زخم لینے والے بڑے دلیر ہوتے ہیں۔
پڑھیے: ہر نوکری چھوڑ دینے والے شخص کی کہانی
یہ کاش کی چکرویو سے نکل کر اونچی اُڑان بھرنے والے ہوتے ہیں۔ اُن کا زخم اُن کی روح کی وہ کھڑکی بن جاتا ہے جہاں سے نور اور روشنی اندر جاتے ہیں۔ اُن کے دُکھ کے عوض اُنہیں عرفان ملتا ہے، احساس ملتا ہے۔ زخم وقت کے ساتھ نہ صرف بھر جاتے ہیں بلکہ اُن سے اندر کی دنیا میں وہ بہاریں جنم لیتی ہیں جن کا تصور عقل سے کرنا ناممکن ہے۔
آپ کی زندگی میں کوئی موقع آئے، اظہارِ محبت کرنا ہو، کسی کو یہ بتانا ہو کہ آپ کے لیے وہ کس قدر اہم اور قیمتی ہیں، کوئی سوال کرنا ہو، اپنی وضاحت دینی ہو، اقرار کرنا ہو یا انکار کرنا ہو، شکر گُزاری یا دلاسہ ہو، کبھی پیچھے نہیں ہٹنا، بس کر دینا ہے، یقین کریں غالب امکان ہیں کہ آپ سرخرو ہوجائیں گے۔ بات بن جائے گی اور اگر ٹھکرا دیے جائیں تو بھی آپ فائدے میں رہیں گے، آپ کو ملنے والا زخم وقت کے ساتھ بھر جائے گا۔ آپ اُس لمحے کی اذیت بھول جائیں گے، درد پر قابو پالیں گے پر اگر آپ اُس امتحان میں ہار گئے، پیچھے رہے، ڈر گئے، بھاگ گئے تو ایک کاش کا طوق ہمیشہ کے لیے آپ کو پہنا دیا جائے گا۔ آپ کو وقت کے ساتھ ایک پچھتاوا مل جائے گا جو آپ کو جیتے جی چَین سے رہنےنہیں دے گا۔
پچھتاوں اور زخموں میں سے ہمیشہ زخم کا انتخاب کرنا۔ زخم بھر جاتے ہیں، پچھتاوے مار دیتے ہیں۔ زخم فاتحین کو ملتے ہیں، دلیروں کو اور دل آوروں کو، جبکہ پچھتاوے ہارے لوگوں کا طوق ہوتے ہیں، کم ظرفوں کے ہوتے ہیں، نااہلوں کے۔ کبھی کاش کے مسافر مت بننا۔ عمر سفر میں کٹ جائے گی اور منزل پھر بھی نہیں ملے گی۔
خزیمہ سلیمان میڈیا سائنسز کے طالب علم ہیں اور 11 برس سے لکھ رہے ہیں۔ ان کے کالم آغا جی کے نام سے شائع ہوتے ہیں۔ انہیں سیلف ہیلپ اور زندگی سے متعلق موضوعات پر لکھنا پسند ہے.
انہیں فیس بک پر یہاںفالو کریں
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔