وزیراعلیٰ بلوچستان کا انتخاب، مسلم لیگ باغی دھڑے کے فیصلے کی منتظر
لاہور: سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنااللہ زہری کے استعفے کے بعد حکمران جماعت مسلم لیگ کم و بیش 15 اراکین صوبائی اسمبلی کے 'باغی دھڑے' کے فیصلے کا انتظار کرے گی جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ اگلے وزیر اعلیٰ بلوچستان کے منصب کیلئے کس امیدوار کی حمایت کی جائے۔
منگل (9 جنوری) کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے والے نواب ثنااللہ زہری کی جگہ سنبھالنے کے لیے سابق وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی، سابق وزیر اعلیٰ صالح بھوتانی اور نوابزادہ چنگیز مری کو امیدوار قرار دیا جا رہا ہے تاہم مسلم لیگ ن کے باغی دھڑے اور نیشنل پارٹی دونوں کے حمایت یافتہ سرفراز بگٹی کو عہدے کے لیے مضبوط امیدوار قرار دیا جا رہا ہے۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے رہنما جان اچکزئی نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزارت اعلیٰ کے امیدوار کی حمایت یا اپوزیشن میں بیٹھنے کے حوالے سے ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی۔ پارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ بیٹھ کر مشاورت کرے گی کہ وزارت اعلیٰ کے لیے مشترکہ امیدوار میدان میں اتارا جائے یا پھر اپوزیشن میں بیٹھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت بلوچستان میں ترقیاتی عمل کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حاصل ہونے والی بڑی کامیابیوں کے سلسلے کو جاری رکھنا چاہتی ہے تاکہ اس لعنت سے چھٹکارا پایا جا سکے۔
مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ زہری مستعفی
وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری اطلاعات مشاہداللہ خان نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بلوچستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پارٹی باغی اراکین اسمبلی کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ قانون دانوں کی جانب سے پارٹی ڈسپلن کی کہاں خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اگر انہوں نے پارٹی کے وزیر اعلیٰ ثنااللہ زہری کے خلاف ووٹ دیا تو صرف اسی صورت میں ان کے خلاف پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کا سوال اٹھتا ہے۔ ہم صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور ہم اسے مناسبت سے اپنا فیصلہ کریں گے۔
سابق وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ باغی اراکین اسمبلی کو اپنی شکایات پارٹی قیادت کے پاس لے کر آنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ہم انتظار کریں گے اور دیکھیں گے کہ 15 سے 16 ووٹوں کے حامل یہ لوگ آنے والے دنوں میں کیا کرتے ہیں اور اسی حساب سے اپنی حکمت عملی طے کریں گے۔
حکمران جماعت کا اصرار ہے کہ بلوچستان میں جاری قیادت کے بحران کا آنے والے سینیٹ انتخابات کے نتائج پر برا اثر نہیں پڑے گا اور پرویز رشید نے آئندہ دس دنوں کو انتہائی اہم قرار دیا تاکہ اس بات کا پتہ لگایا جا سکے کہ کہیں ثنااللہ زہری کو عہدے سے پٹانے میں 'دیگر عناصر' تو ملوث نہیں۔
ادھر جان محمد جمالی کی قیادت میں کام کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے باغی دھڑے نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ آئندہ چند دنوں میں ثنااللہ زہری کے جانشین کا انتخاب کر لیں گے۔
منگل کی رات نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے جان محمد جمالی نے کہا کہ اگلے وزیرِاعلیٰ کا انتخاب ہم کریں گے۔ ہمیں مسلم لیگ ن کے 15 سے زائد قانون دانوں کی حمایت حاصل ہے اور اس سلسلے میں پارٹی اور اتحادیوں کے درمیان مشاورت جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ثنااللہ زہری نےمستعفی ہو کر اسمبلی تحلیل ہونے سے بچائی، تجزیہ کار
انہوں نے کہا کہ انکشاف کیا کہ وہ اس معاملے پر پارٹی سربراہ نواز شریف سے متفق نہیں تھے۔ 'نواز شریف بلوچستان سے زیادہ پنجاب کے معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں۔ میں مسلم لیگ کا ہی حصہ رہوں گا کیونکہ میرا خاندان 1933 سے اس پارٹی سے منسلک ہے لیکن وزیر اعلیٰ کا انتخاب لاہور میں نہیں کیا جائے گا۔
بلوچستان اسمبلی میں 11 نشستوں کے حامل نیشنل پارٹی کے صدر سینیٹر میر حاصل بزنجو نے سابق صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں 65 نشستیں ہیں اور وزیر اعلیٰ کو 35 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
اس وقت بلوچستان اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے اعتبار سے مسلم لیگ 21 سیٹوں کے ساتھ پہلے، پختونخوا ملی عوامی پارٹی 14 سیٹوں کے دوسرے اور نیشنل پارٹی 11 سیٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام(فضل الرحمان) کی آٹھ، مسلم لیگ ق کی پانچ، بلوچستان نیشنل پارٹی کی دو جبکہ مجلس وحدت المسلمین، بی این پی عوامی اور آزاد امیدوار کی ایک ایک سیٹ ہے۔