— فوٹو: ڈان نیوز
انسپیکٹر جنرل (آئی جی) بلوچستان معظم جاہ انصاری کا کہنا تھا کہ دھماکا خودکش تھا جس میں 5 پولیس اہلکاروں سمیت 7 افراد جاں بحق اور 8 اہلکاروں سمیت 18 افراد زخمی ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ وہ پیشگی طور پر یہ بتا سکتے ہیں کہ حملہ آور افغانستان سے آیا تھا۔
لاشوں اور زخمیوں کو سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا جہاں ایمرجنسی نافذ کردی گئی، جبکہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر کسی غیر متعلقہ شخص کو ہسپتال میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ: پولیس ٹرک کے قریب دھماکا، 7 افراد جاں بحق
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے پی‘ کے مطابق خودکش حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔
طالبان کے بیان میں کہا گیا کہ خودکش حملہ آور نے بلوچستان اسمبلی کی سیکیورٹی سے لوٹنے والے پولیس دستے کو نشانہ بنایا۔
دھماکے کے وقت بلوچستان اسمبلی کے اراکین اجلاس ختم ہونے کے بعد عمارت سے باہر نکل رہے تھے، جبکہ اسمبلی اجلاس کے باعث سیکیورٹی کے بھی غیر معمولی انتظامات کیے گئے تھے۔
بم ڈسپوزل اسکواڈ کا کہنا تھا کہ خودکش دھماکے میں بلوچستان کانسٹیبلری (بی سی) کی نفری کو ٹارگٹ کیا گیا۔
دھماکے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق خودکش حملہ آور پیدل تھا جس کی عمر 15 سے 20 سال کے قریب تھی، جبکہ دھماکے میں تقریباً 8 سے 10 کلو باودی مواد استعمال کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ خودکش حملہ آور کے جسم کے باقیات اور دیگر شواہد کا تجریہ کیا جارہا ہے، جبکہ دھماکے کی مزید تحقیقات متعلقہ پولیس حکام کر رہے ہیں۔
اس واقعے کا مقدمہ تھانہ سول لائنز میں ایس ایچ او کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا گیا۔
سابق وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے دہشت گردوں کے حالیہ حملے کو وزیر اعلیٰ کے استعفے کے بعد بلوچستان کا منفی تاثر دینے کی کوشش قرار دیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’صوبے میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔‘
واضح رہے کہ دھماکے سے چند گھنٹے قبل ہی وزیر اعلیٰ بلوچستان اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔
انہوں نے اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے سے قبل گورنر محمد خان اچکزئی کو اپنا استعفیٰ پیش کیا، جو قبول کرلیا گیا۔
میڈیا کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں نواب ثناء اللہ زہری کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران بلوچستان کے سیاسی حالات بہت کشیدہ ہوگئے تھے جس میں ان کے ساتھیوں ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے تحفظات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت اور وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی بھی کوئٹہ تشریف لائے تاہم اس معاملے میں مثبت پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔
یاد رہے کہ 17 دسمبر کو بھی کوئٹہ کے زرغون روڈ پر واقع بیتھل میموریل میتھوڈسٹ چرچ میں خودکش دھماکے اور فائرنگ کے نتیجے میں 3 خواتین سمیت 9 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
قبل ازیں 25 نومبر 2017 کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں دھماکے میں 6 افراد جاں بحق جبکہ 19 زخمی ہوگئے تھے۔
گزشتہ کچھ برسوں میں سیکیورٹی اداروں نے صوبے میں امن عامہ کی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، تاہم شرپسند عناصر تخریبی کارروائیوں کی کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں، پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں بلوچستان کے اہم کردار کی وجہ سے حکام دیگر ممالک کے خفیہ اداروں پر حالات خراب کرنے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔
اس حوالے سے صوبائی حکومت متعدد مرتبہ یہ دعویٰ کرچکی ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘، افغانستان کی خفیہ ایجنسی ’این ڈی ایس‘ کے ساتھ مل کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔