پاکستان

نیب ریفرنسز: نیب استغاثہ کے 4 گواہان کے بیانات قلمبند

احتساب عدالت نے استغاثہ کےمزید 2گواہوں کے علاوہ آج غیرحاضر رہنے والے گواہ کو بھی آئندہ سماعت پرطلب کرلیا۔
|

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں دائر 3 مختلف ریفرنس کی سماعت کے دوران استغاثہ کے 4 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے جبکہ 2 مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کردیا گیا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کی سماعت کی۔

گزشتہ سماعت میں طلب کیے گئے استغاثہ کے 5 گواہان میں سے 4 گواہان نے احتساب عدالت میں پیش ہوکر اپنا بیان قلمبند کرایا جبکہ اک گواہ عمر دراز طبیعت کی خرابی کے باعث پیش نہیں ہوسکے تھے۔

عدالت میں گواہان کے بیانات

احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کے دوران سیکیورٹی ایکسچیبنج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی جوائنٹ رجسٹرار سدرہ منصور نے بیان قلمبند کرالیا۔

اپنے بیان میں سدرہ منصور نے مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز میں حسین نواز کے شیئرز کی تفصیلات پیش کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب کو فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق حسین نواز چار لاکھ 87 ہزار 400 شیئرز کے مالک تھے جبکہ مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز کے ایک شیئر کی قیمت 10 روپے تھی۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 27 مارچ 2001 کے فارم اے کے مطابق 4 لاکھ 87 ہزار 400 حصص شریف ٹرسٹ کو منتقل کردیے گئے تھے جبکہ ریکارڈ کے مطابق یہ شیئرز گفٹ کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 12فروری 2001 کو شریف ٹرسٹ کی طرف سے ایک ہزار حصص حسین نواز کو منتقل کیے گئے اور 28 مارچ 2002 کے فارم اے کے مطابق حسین نواز مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز میں 1ہزار شیئرز کے مالک تھے۔

انہوں نے کہا کہ 25 اگست 2017 کو نیب راولپنڈی میں پیش ہوکر تفتیشی افسر کو بیان ریکارڈ کرایا اور 25 اگست 2017 کو نیب راولپنڈی میں پیش ہوکر تفتیشی افسر کو بھی بیان ریکارڈ کرایا۔

گواہ کا کہنا تھا کہ نیب کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ یہ العزیزیہ اور ہل میٹل اسٹبلشمنٹ کے حوالے سے تفتیش ہے۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے گواہ سے سوال کیا کہ آپ نے جو دستاویزات پیش کیں وہ کسی اور ادارے سے متعلق ہیں اور تفتیش کسی اور حوالے سے ہے۔

جس پر گواہ کا کہنا تھا کہ ایس ای سی پی میں العزیزیہ اور ہل میٹل اسٹبلشمنٹ کے حوالے سے ریکارڈ کی موجودگی میرے علم میں نہیں ہے، تفتیشی افسر نے بھی العزیزیہ اور ہل میٹل کے ریکارڈ کے حوالے سے نہیں پوچھا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق مہران رمضان مل سے العزیزیہ اور ہل میٹل کو کوئی ٹرانزیکش نہیں ہوئی، تفتیشی افسر نے ٹرانزیکشنز کے حوالے سے بھی کوئی سوال نہیں پوچھا تھا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نیب کو فراہم کردہ دستاویزات پڑھ کر بیان قلمبند کرایا تھا اور یہ دستاویزات میری موجودگی میں تیار نہیں کیے گئے۔

سدرہ منصور نے نیب کوفراہم کی گئی دستاویزات کی اصل کاپیز بھی عدالت میں پیش کردیں۔

العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں استغاثہ کے دو مزید گواہوں تسلیم خان اور محمد زبیر کے بیانات بھی قلمبند کرلیے گئے

تسلیم خان نے نواز اور ان کے بیٹوں کا انکم اور وہلتھ ٹیکس ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جبکہ نجی بنک سے تعلق رکھنے والے محمد زبیر نے نواز شریف، حسن اور حسین کے اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔

علاوہ ازیں اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب عذیر ریحان نے اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے بتایا کہ جہانگیر احمد اور شہباز حیدر نے میرے سامنے دستاویزات تفتیشی افسر کو فراہم کی تھیں۔

تاہم ایک اور گواہ کی عدم حاضری کی پیشگی اطلاع نہ دینے پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے عدالت میں اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ گواہ کا بھی سرکاری اسپتال سے میڈیکل سرٹیفکیٹ آنا چاہئے

ان کا کہنا تھا کہ اگر اطلاع دے دیتے کہ گواہ نے نہیں آنا تو میں بھی آج پیش نہ ہوتا۔

جس پر نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ میرے پاس آپ کا موبائل نمبر نہیں تھا ورنہ آپ کو آگاہ کر دیتا۔

بعد ازاں احتساب عدالت نے نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت 16 جنوری تک ملتوی کردی۔

نواز شریف کی میڈیا سے گفتگو

نواز شریف نے کمرہ عدالت میں صحافیوں سے مختصر گفتگو کی جس کے دوران ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ 17 تاریخ سے طاہر القادری کی قیادت میں شروع ہونے والی ایک نئی تحریک کا سامنا کرنے کو تیار ہیں؟

نواز شریف نے جواب دیا کہ ساڑھے چار سالوں سے تو انہی تحریکوں کا سامنا ہے اور اب تحریکوں کا سامنا کرنا معمول کی سی بات ہو گئی ہے۔

نواز شریف نے صحافیوں سے سوال کیا کہ کیا آپ کو کیسز کی کچھ سمجھ آرہی ہے؟ جس پر صحافیوں نے جواب دیا کہ جی دیکھ رہے ہیں کہ گواہان بیانات قلمبند کرا رہے ہیں۔

نواز شریف کا مزید کہنا تھا کہ گواہ تو کہہ رہے ہیں لیکن یہ شائع نہیں ہو رہا۔

تاہم بعد ازاں عدالت کے باہر نواز شریف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایک خاندان کی حرمت کو داؤ لگا دیا گیا ہے اور میں ذاتیات پر گفتگو کرنے کا قائل نہیں ہوں جبکہ عمران خان کی شادی کا معاملہ ذاتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں۔

خیال رہے کہ نواز شریف احتساب عدالت میں اپنے خلاف چلنے والے کیس کی سماعت کے لیے اب تک 12 ویں مرتبہ جبکہ مریم نواز 14 ویں مرتبہ پیش ہوئیں۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے تھے جبکہ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا نام ایون فیلڈ ایونیو میں موجود فلیٹس سے متعلق ریفرنس میں شامل ہے۔

سپریم کورٹ نے نیب کو 6 ہفتوں کے اندر شریف خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت جاری کی تھی، تاہم نیب نے 8 ستمبر کو عدالت میں ریفرنسز دائر کیے تھے۔

احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔

دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔

تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔

بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔

کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر پر فردِ جرم عائد

ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔

نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔

عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔

نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔

22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔

6 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے نواز شریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔

7 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا تھا۔

11 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا تھا۔

19 دسمبر 2017 کو احتساب عدالت میں 3 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے جبکہ استغاثہ کے دو مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

3 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران طلب کیے گئے دونوں گواہان کے بیانات قلمبند اور ان سے جرح بھی مکمل کی گئی تھی جس کے بعد احتساب عدالت نے 5 مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔