گستاخانہ مواد کیس: انسداد دہشتگردی عدالت میں 3 گواہان کے بیان قلمبند
اسلام آباد: سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد اپ لوڈ کرنے سے متعلق کیس میں تین گواہوں نے انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں اپنا بیان قلمبند کرادیا۔
جن گواہوں نے اے ٹی سی جج شاہ رخ ارجمند کے سامنے گواہی دی، ان میں درخواست گزار احتشام احمد سمیت رومان احمد اور عمار یاسر شامل تھے۔
خیال رہے کہ ان گواہوں نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد اپ لوڈ کرنے پر ٹرائل کا سامنا کرنے والے چار مشتبہ افراد کے خلاف گواہی دی، تاہم ملزمان کے وکیل کی عدم موجودگی کے باعث گواہوں کے جرح کا عمل منگل 9 جنوری تک ملتوی کردیا گیا۔
مزید پڑھیں: ’توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والا دوہرے جرم کا مرتکب‘
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت میں انسداد دہشتگردی عدالت نے درخواست گزار سمیت دونوں گواہوں کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے، تاہم تینوں گواہان گزشتہ روز عدالت میں پیش ہوئے اور اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔
اس سے قبل وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) نے چار مشتبہ افراد کو گستاخانہ مواد کے سلسلے میں حراست میں لیا تھا اور پاکستان پینل کوڈ ( پی پی سی) کے مختلف سیکشن کے تحت فرسٹ انفارمیشن رپورٹ ( ایف آئی آر) درج کی تھی۔
قبل ازیں اے ٹی سی نے ایک مشتبہ شخص کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی تھی۔
یاد رہے کہ یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ ( آئی ایچ سی ) میں لال مسجد کی شہداء فاؤنڈیشن کی جانب سے لایا گیا تھا، جہاں ابتدائی طور پر بلاگرز پر گستاخانہ مواد اپ لوڈ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
تاہم ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا تھا کہ گزشتہ برس لاپتہ ہونے والے بلاگرز گستاخانہ مواد میں ملوث نہیں ہیں اور تحقیقاتی ایجنسی کو ان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے۔
جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے تھے کہ جن کے خلاف شواہد نہیں ملے ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ توہینِ رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والا دوہرے جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گستاخی کے ملزم نے تمام الزامات مسترد کر دیے
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ فیصلہ کرے گی کہ الزام لگانے والا جھوٹا ہے یا شواہد ناکافی ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو مل کر ورکنگ پیپر تیار کرکے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا اور این جی اوز کے خلاف فیصلے سے اب تک ہونے والی کارروائی کی رپورٹ بھی طلب کی تھی۔