دنیا

امریکا نے پاکستان کی سیکیورٹی امداد روک دی

امریکا کی جانب سے ملنے والی اس امداد کو فوجی سامان اور دوست ملک کی ٹریننگ میں استعمال کیا جانا تھا۔

واشنگٹن: ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کے وعدے کو پورا کرنے تک پاکستان کی تمام سیکیورٹی امداد روک دی گئی ہے۔

امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھر نوریٹ نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ واشنگٹن کی جانب سے کیا گیا یہ اعلان ہمیشہ کے لیے نہیں ہے اور اس سے صرف فوجی امداد پر اثر پڑے گا۔

سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اس امریکی اعلان کے تحت پاکستان کی تمام امداد کو نہیں روکا گیا بلکہ اس میں کچھ شرائط شامل ہیں اور معاملے کی نوعیت پر فیصلے کرنے کا کہا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق اس نئی پیش رفت سے فنڈز ایک مخصوص مقصد کے لیے رکھے جائیں گے جنہیں ہدف حاصل کرنے پر ہی جاری کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: 'ہم سے ملنے والی امداد کا حق پاکستان کو ثابت کرنا ہو گا'

ہیتھر نوریٹ کا کہنا تھا پاکستان کی جانب سے امریکی اہلکاروں کو نشانہ بنانے والے اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی سامنے آنے تک امداد کی منسوخی جاری رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان وہ اقدامات نہیں اٹھا رہا جو اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اٹھانے چاہیے تھے۔

پاکستان کو دی جانے والی امداد کے حوالے سے سوال کے جواب میں ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم اب بھی نمبروں پر کام کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے پاکستان کو 15 سال تک امداد دے کر بیوقوفی کی، ڈونلڈ ٹرمپ

تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے بین الاقوامی فوجی امداد (ایف ایم ایف) فنڈ میں سے 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی سیکیورٹی امداد پہلے ہی روک دی جسے فوجی سامان اور دوست ملک کی ٹریننگ میں استعمال کیا جانا تھا۔

واضح رہے امریکی کانگریس نے بھی 70 کروڑ ڈالر کی آدھی امداد روک دی ہے جسے پاکستان کو پاک افغان سرحد پر امریکی جنگ میں تعاون پر دیا جانا تھا۔

خیال رہے کہ پاکستان کے خلاف اقدامات کی خبریں یکم جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ٹوئیٹ کیے جانے کے بعد سے گردش کر رہی ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹ میں پاکستان پر الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کو مبینہ محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے جو افغانستان میں اتحادی فوج کو نشانہ بنانے میں غیر معمولی مدد فراہم کر رہی ہیں لیکن اب ایسا نہیں چلے گا‘۔

مزید پڑھیں: بین الاقوامی برادری پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرے، چین

سیکیورٹی امداد کو روکنے کا منصوبہ امریکا کی جانب سے نئی افغان پالیسی کے بعد سامنے آیا جس میں اسلام آباد سے امریکا نے 'ڈو مور' کا مطالبہ کیا تھا۔

ترجمان نے بتایا کہ نئی پیش رفت سے محکمہ دفاع کے زیر انتظام دیگر سیکیورٹی امداد کو بھی روک دیا جائے گا تاہم انہوں نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی۔

قبل ازیں سیکریٹری دفاع جیمس میٹس کا کہنا تھا کہ فوجی امداد کی پالیسی اب بھی تشکیل دی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’امریکانے قربانیاں تسلیم نہ کیں توتعاون کی پالیسی پرنظر ثانی کریں گے‘

اوبامہ انتظامیہ کے دوران وائٹ ہاؤس نیشنل سیکیورٹی کونسل میں پاکستان اور افغانستان کی سابقہ ڈائریکٹر شمیلا این چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف جلد نئے اقدامات کیے جانے کے امکان پر ٹرمپ انتظامیہ کو ایک بار پچھلے دور حکومت میں پاکستان کے رویے کو تبدیل کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

امریکی ریڈیو این پی آر سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب وقت ہے کہ سوال کیا جائے کہ ہم ایسے ملک کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں جس کے مفادات ہم سے ملتے ہوں اور وہ جو ہم سے کئی دہائیوں سے توجہ بھی چاہتا ہے۔

علاوہ ازیں امریکی محکمہ خارجہ سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ’دنیا کے کئی مقامات پر مذہبی آزادی کے حق کے استعمال یا اعتقاد پر لوگوں کو غیر منصفانہ طور پر سزائیں دی جارہی ہیں اور قید میں رکھا جارہا ہے۔‘

مزید پڑھیں: امریکا نے پاکستان کا نام ’خصوصی واچ لسٹ‘ میں ڈال دیا

پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ’آج کئی حکومتیں لوگوں کے مذہب یا اعتقاد کو ختم کرکے انہیں اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق چلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘

بیان میں برما، چین، ایریٹریا، ایران، شمالی کوریا، سوڈان، سعودی عرب، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کو بین الاقوامی مذہبی آزادی کے قانون 1998 کے تحت ’خصوصی تشویش والے ممالک‘ کی فہرست میں دوبارہ نامزد کردیا گیا۔


یہ خبر 5 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی