راجاؤں، مہاراجاؤں اور نوابوں کے عجیب و غریب مشاغل (پہلا حصہ)
یہ راجاؤں، مہاراجاؤں اور نوابوں کے عجیب و غریب مشاغل کا پہلا حصہ ہے۔ دوسرا اور تیسرا حصہ یہاں پڑھیے۔
ہندوستان کے راجاؤں، مہاراجاؤں اور نوابوں کے بڑے ہی عجیب و غریب شوق اور مشاغل تھے۔ اُن میں سے کچھ تو قابلِ بیان ہیں اور بہت سے ناقابلِ بیان۔ ان والیانِ ریاست کا انجام بہت دردناک ہوا۔ عصرِ حاضر میں اُن کی وہ شان و شوکت اور مشاغل اب صرف تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ لیکن اُن کے معمولات اتنے سطحی تھے کہ لوگ اب صرف ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے حوالے سے سب سے دردناک انجام نواب آف جونا گڑھ اور ان کے خاندان کا ہوا۔
جونا گڑھ کا شمار متحدہ ہندوستان کی اُن ریاستوں میں ہوتا ہے جس کے نواب نے تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ جونا گڑھ کے نواب مہابت خانجی مسلمان تھے جب کہ ریاست کی 80 فیصد آبادی غیر مسلموں پر مشتمل تھی۔ مہابت خان نے ریاست کی باگ ڈور 31 مارچ 1920ء کو باقاعدہ طور پر سنبھالی۔ نواب مہابت خان کو ریاستی امور میں قطعی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنا بیشتر وقت کتوں کے ساتھ گزارنا پسند فرماتے تھے۔ ریاست کا تمام انتظام اور حکومتی امور وزیرِاعظم کے حوالے ہوتے تھے، جسے دیوان کے لقب سے بھی پکارا جاتا تھا۔ ریاست کے آخری وزیرِ اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے دادا سر شاہنواز بھٹو تھے۔
مصنف اقبال پاریکھ اپنی کتاب جونا گڑھ اجڑی دیار کی کہانی میں لکھتے ہیں کہ برطانوی حکومت نے نواب صاحب کو بہت سے خطابات سے نواز رکھا تھا۔ ایک مرتبہ ریاست کے پولیٹکل ایجنٹ نے اُنہیں ایک اور خطاب کی پیشکش کردی اور یہ سنتے ہی وہ تلملا کر بولے،
’نہیں نہیں مجھے اور کوئی خطاب نہیں چاہیے، خواہ مخواہ مجھے وائسرائے کا شکریہ ادا کرنے دہلی جانا پڑے گا‘۔
وہ مزید لکھتے ہیں کبھی کبھی نواب صاحب باغ میں بھی نظر آجایا کرتے تھے۔ وہ کھلی کار میں خود ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوتے اور پچھلے سیٹ کتوں کے حوالے ہوتی۔ کار دھیمی رفتار سے چلتی رہتی اور کتے زبان نکالے ہوا خوری کے مزے لیتے رہتے۔ نواب صاحب ہر کتے کو اس کے الگ نام سے پکارتے تو وہ اچک کر باہر نکل جاتا اور کار کے ساتھ ساتھ چلنے لگتا۔ پاریکھ صاحب کا قلم نواب صاحب کے کتوں کا ذکر بڑے دھیمے لہجے میں کرتا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ نواب مہابت خان کا کتوں کا شوق اپنی جگہ مگر اُنہیں عام لوگوں سے بھی بے پناہ محبت تھی۔ وہ ان کی فلاح و بہبود کا ہر ممکن خیال رکھتے تھے، خاص طور پر مسلمانوں کا درد ان کے دل میں بہت تھا۔
مزید پڑھیے: ایک بادشاہ کا غضب اور ایک عورت کی طاقت
تقسیمِ ہند کے حوالے سے نوابوں، راجاؤں اور مہاراجاؤں کا ذِکر صحافی لیری کولنس، دامنک لیپئر کی کتاب آزادی نیم شب (فریڈم ایٹ مڈ نائٹ) میں بھی ہوا ہے، جس کا ترجمہ سعید سہروردی نے کیا ہے۔ اِن دونوں صحافیوں نے اپنی کتاب کے ایک باب ’محل اور شیر، ہاتھی اور جواہرات‘ میں تقسیم کے وقت راجاؤں، مہاراجاؤں اور نوابوں کے حالات بڑے دلچسپ اور بے باک پیرائے میں بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جونا گڑھ کے نواب کا کتے پالنے کا شوق جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ اس کے محبوب کتوں کے کمروں میں بجلی اور پانی کا بندوبست تو تھا ہی، مگر ساتھ ساتھ ٹیلیفون کی سہولت بھی موجود تھی۔ یہی نہیں، بلکہ کتوں کی خدمت کے لیے ملازم ہر وقت تعینات رہتے تھے۔ حال یہ تھا کہ جونا گڑھ کے محض 10 سے 20 افراد کے علاوہ کسی اور کا معیارِ زندگی اِن کتوں سے زیادہ بلند نہیں تھا۔