نقطہ نظر

راجاؤں، مہاراجاؤں اور نوابوں کے عجیب و غریب مشاغل (پہلا حصہ)

نواب صاحب نے اپنی کتیا کی شادی میں 60 ہزار پاؤنڈ خرچ کیے۔ اتنی خطیر رقم سے 12 ہزار افراد کی پورے سال پرورش ہوسکتی تھی۔

یہ راجاؤں، مہاراجاؤں اور نوابوں کے عجیب و غریب مشاغل کا پہلا حصہ ہے۔ دوسرا اور تیسرا حصہ یہاں پڑھیے۔


ہندوستان کے راجاؤں، مہاراجاؤں اور نوابوں کے بڑے ہی عجیب و غریب شوق اور مشاغل تھے۔ اُن میں سے کچھ تو قابلِ بیان ہیں اور بہت سے ناقابلِ بیان۔ ان والیانِ ریاست کا انجام بہت دردناک ہوا۔ عصرِ حاضر میں اُن کی وہ شان و شوکت اور مشاغل اب صرف تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ لیکن اُن کے معمولات اتنے سطحی تھے کہ لوگ اب صرف ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے حوالے سے سب سے دردناک انجام نواب آف جونا گڑھ اور ان کے خاندان کا ہوا۔

جونا گڑھ کا شمار متحدہ ہندوستان کی اُن ریاستوں میں ہوتا ہے جس کے نواب نے تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ جونا گڑھ کے نواب مہابت خانجی مسلمان تھے جب کہ ریاست کی 80 فیصد آبادی غیر مسلموں پر مشتمل تھی۔ مہابت خان نے ریاست کی باگ ڈور 31 مارچ 1920ء کو باقاعدہ طور پر سنبھالی۔ نواب مہابت خان کو ریاستی امور میں قطعی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنا بیشتر وقت کتوں کے ساتھ گزارنا پسند فرماتے تھے۔ ریاست کا تمام انتظام اور حکومتی امور وزیرِاعظم کے حوالے ہوتے تھے، جسے دیوان کے لقب سے بھی پکارا جاتا تھا۔ ریاست کے آخری وزیرِ اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے دادا سر شاہنواز بھٹو تھے۔

مصنف اقبال پاریکھ اپنی کتاب جونا گڑھ اجڑی دیار کی کہانی میں لکھتے ہیں کہ برطانوی حکومت نے نواب صاحب کو بہت سے خطابات سے نواز رکھا تھا۔ ایک مرتبہ ریاست کے پولیٹکل ایجنٹ نے اُنہیں ایک اور خطاب کی پیشکش کردی اور یہ سنتے ہی وہ تلملا کر بولے،

’نہیں نہیں مجھے اور کوئی خطاب نہیں چاہیے، خواہ مخواہ مجھے وائسرائے کا شکریہ ادا کرنے دہلی جانا پڑے گا‘۔

وہ مزید لکھتے ہیں کبھی کبھی نواب صاحب باغ میں بھی نظر آجایا کرتے تھے۔ وہ کھلی کار میں خود ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوتے اور پچھلے سیٹ کتوں کے حوالے ہوتی۔ کار دھیمی رفتار سے چلتی رہتی اور کتے زبان نکالے ہوا خوری کے مزے لیتے رہتے۔ نواب صاحب ہر کتے کو اس کے الگ نام سے پکارتے تو وہ اچک کر باہر نکل جاتا اور کار کے ساتھ ساتھ چلنے لگتا۔ پاریکھ صاحب کا قلم نواب صاحب کے کتوں کا ذکر بڑے دھیمے لہجے میں کرتا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ نواب مہابت خان کا کتوں کا شوق اپنی جگہ مگر اُنہیں عام لوگوں سے بھی بے پناہ محبت تھی۔ وہ ان کی فلاح و بہبود کا ہر ممکن خیال رکھتے تھے، خاص طور پر مسلمانوں کا درد ان کے دل میں بہت تھا۔

مزید پڑھیے: ایک بادشاہ کا غضب اور ایک عورت کی طاقت

تقسیمِ ہند کے حوالے سے نوابوں، راجاؤں اور مہاراجاؤں کا ذِکر صحافی لیری کولنس، دامنک لیپئر کی کتاب آزادی نیم شب (فریڈم ایٹ مڈ نائٹ) میں بھی ہوا ہے، جس کا ترجمہ سعید سہروردی نے کیا ہے۔ اِن دونوں صحافیوں نے اپنی کتاب کے ایک باب ’محل اور شیر، ہاتھی اور جواہرات‘ میں تقسیم کے وقت راجاؤں، مہاراجاؤں اور نوابوں کے حالات بڑے دلچسپ اور بے باک پیرائے میں بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جونا گڑھ کے نواب کا کتے پالنے کا شوق جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ اس کے محبوب کتوں کے کمروں میں بجلی اور پانی کا بندوبست تو تھا ہی، مگر ساتھ ساتھ ٹیلیفون کی سہولت بھی موجود تھی۔ یہی نہیں، بلکہ کتوں کی خدمت کے لیے ملازم ہر وقت تعینات رہتے تھے۔ حال یہ تھا کہ جونا گڑھ کے محض 10 سے 20 افراد کے علاوہ کسی اور کا معیارِ زندگی اِن کتوں سے زیادہ بلند نہیں تھا۔

نواب سر محمد مہابت خانجی

جونا گڑھ کے نواب نے اپنی چہیتی کُتیا ’روشن‘ کی شادی ایک لیبرڈ کتے ’بابی‘ کے ساتھ کی، جس میں شرکت کے لیے اُنہوں نے ہندوستان کے ہر مشہور و معروف آدمی، راجاؤں، مہاراجاؤں، یہاں تک کے وائسرائے کو بھی مدعو کیا۔ وائسرائے تو خیر نہیں آئے لیکن مدعو حضرات میں سے بیشتر تشریف لے آئے اور ڈیڑھ لاکھ مہمان جمع ہوگئے۔ بارات بڑی ہی شاندار بارات انداز سے نکلی جس میں نواب کے ہاتھی اور باڈی گارڈز نے بھی شرکت کی۔ سب کی ضیافت لذیذ اور مرغن کھانوں سے کی گئی۔ اِس تقریب پر نواب صاحب نے 60 ہزار پاؤنڈ خرچ کیے۔ اِس خطیر رقم کو اگر اُس زمانے کی قیمتوں کے مطابق سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یوں سمجھ لیجیے کہ اِس رقم سے 12 ہزار افراد کی پورے سال پرورش ہوسکتی تھی۔

اِسی طرح مہاراجہ گوالیار نے لوہے کی ایک بہت بڑی میز بنوائی۔ اُس پر چاندی کی پٹڑیاں بٹھائی گئیں جن کی لمبائی 250 فٹ سے زیادہ تھی۔ یہ میز کھانے کے کمرے میں رکھ دی گئی۔ دیوار میں سوراخ کرکے پٹڑیاں اِس طرح آگے بڑھائی گئیں کہ اُس میز کا ربط مہاراجہ کے باورچی خانے سے قائم ہوگیا۔ اُس کے بعد ایک کنٹرول پینل بنایا گیا، جس میں ناجانے کتنے سوئچ، الارم، سگنل اور لیور لگے تھے۔ یہ پینل میز پر فٹ کردیا گیا۔ مہاراجہ کے مہمان میز کے چاروں طرف بیٹھتے اور مہاراجہ خود کنٹرول پینل کو قابو کرتے تھے۔ وہ سوئچ دباتے، لیور اُٹھاتے گراتے، نہ جانے کیا کھڑ پڑ کرتے۔

چاندی کی پٹڑیوں پر ٹرین دوڑتی، رکتی، سرکتی اور بھاگتی رہتی تھی۔ وہ ٹرین باورچی خانے میں جاتی تھی جہاں ملازم چپاتی، ترکاری اور دوسرے کھانے ٹرین کے کھلے ڈبوں میں رکھ دیتے تھے۔ مال سے لدی ہوئی ٹرین کھانے کے کمرے میں آتی تھی۔ مہا راجہ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ جس مہمان کے سامنے چاہتے ٹرین کو روک دیتے اور وہ اپنی پسند کی چیزیں نکال لیتا۔ اِسی طرح وہ جسے بھوکا رکھنا چاہتے تو کنٹرول کے مخصوص بٹن دبا دیتے تو مال سے لدی ہوئی ٹرین بچارے مہمان کے سامنے سے بغیر رُکے سرسراتی ہوئی آگے نکل جاتی تھی۔

اب بھی گوالیر میں کھاتی پھلاتی ٹرین بڑی بڑی میزوں پر نظر آجاتی ہے

ایک رات مہاراجہ نے وائسرائے اور اُس کے اہلِ خانہ کو کھانے پر مدعو کیا تو کنٹرول پینل میں شاٹ سرکٹ ہوگیا۔ مال سے لدی ہوئی گاڑی باورچی خانے سے تیر کی طرح آئی اور طوفانی رفتار سے میز کا چکر کاٹنے لگی اور رُکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ کُھلے ڈبوں سے سبزی، دال، گھی، تیل اچار اُچھل، اُچھل کر مہمانوں کے کپڑوں پر گرنے لگا، مہمان توبہ بول گئے۔ ریلوں کی تاریخ میں اِس قسم کا حادثہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ عیش اور نفس پرستی کے علاوہ مذہب سے گہری وابستگی بھی راجاؤں کی ایک اہم خصوصیت تھی۔ بنارس کے مہاراجہ کا معمول یہ تھا کہ صبح کے وقت اُس کی پہلی نظر گؤماتا پر پڑنی چاہیے۔ ہر صبح اُن کی خواب گاہ کی کھڑکی پر ایک گائے کھڑی کردی جاتی۔ نوکر اُسے کونچتے، وہ رمباتی۔ اس سے مہاراجہ کی آنکھ کُھل جاتی اور پہلی نظر گائے پر پڑتی۔ ایک بار مہاراجہ بنارس اپنے دوست نواب رام پور کے مہمان ہوئے۔ وہاں اُنہیں دوسری منزل پر ٹھہرایا گیا۔ اب اتنی اونچائی پر ان کی خواب گاہ کی کھڑکی پر گائے کیسے پہنچائی جائے؟ آخر خاص طور پر صرف اِسی مقصد کے لیے نواب رامپور نے بلاتاخیر کرین خرید لی۔

جب کرین سے گائے کو اوپر اُٹھایا جاتا تو ہوائی سفر کی عادی نہ ہونے کی وجہ سے گائے رمبانا شروع کردیتی اور کسی نوکر کو کونچنے کی ضرورت نہ پڑتی اور مہاراجہ بنارس کی آنکھ کھل جاتی اور پہلی نظر گائے پر پڑنے کا معمول پورا ہوجاتا۔

مزید پڑھیے: سندر مندرئیے

نواب آف جوناگڑھ کے خاندان کا دردناک انجام کیوں ہوا اور اِس کی وجوہات کیا تھیں اِس کا تفصیلی ذکر بھوپال کی شہزادی، عابدہ سُلطان نے اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔ وہ اِس ضمن میں لکھتی ہیں کہ:

1950ء میں جب میں پاکستان آئی تھی تو میں نے دیکھا کہ شاہی جونا گڑھ ہاؤس، عجیب بے ڈھنگا اور عیش کوش طرزِ زندگی کا نمونہ پیش کر رہا ہے۔ ان کا رویّہ حکومتِ پاکستان اور ہم جیسوں، جو شاہی ریاستوں سے تعلق رکھتے تھے، کے لیے باعث شرمندگی تھا۔ نواب جونا گڑھ کا مستقل مشغلہ اپنے کتوں کی فوج میں مشغول رہنا تھا، جو وہ جونا گڑھ سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ اُن میں سے زیادہ تر بازاری کتے تھے۔ یہ کُتے ہر صبح ہِزہائی نس کے سامنے باقاعدہ پریڈ کرتے اور اکثر اُن پالتو جانوروں کی شادی کی تقریبات منعقد کی جاتیں، جس میں ان کو دُلہا دُلہن کے مخصوص لباس پہنائے جاتے، موسیقی کی محفل جمتی اور حاضرین دربار خراج تحسین پیش کرتے۔ نواب صاحب کے ساتھ اُن کے خوشامدیوں اور طرح طرح کے مسخروں کی ٹولی رہتی اور اپنے محبوب بازاری کتوں اور تین جونا گڑھی بیویوں کے درمیان گھرے رہتے۔ ان کا اُن کی بڑی بیگم یعنی ماں صاب سے ہمیشہ اختلاف رہا جنہیں الگ گھر میں علیحدہ کردیا گیا تھا۔ دلاور منزل کا نام ان کے بیٹے دلاور خانجی کے نام پر رکھا گیا تھا جو خوبصورت جوان، پبلک اسکول کا تعلیم یافتہ اور ان کا اکیلا وارث تھا۔

دلاور منزل میں ماں صاب اپنے اور بھی زیادہ عیش کوش خاندان پر حکومت کرتی تھیں جو اُن کے بھوپالی رشتہ دار، طفیلیوں اور ذاتی ملازمین پر مشتمل تھا۔ ماں صاب نے اپنے خاوند کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان کر رکھا تھا۔ دونوں گھر سازشوں کا گڑھ بن گئے تھے اور ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی، بے وفائی اور دوغلے پن کے الزامات تراش کرنا ان کا روزمرہ کا معمول بن چکا تھا۔

نواب صاحب کی طرف سے ناکافی ماہانہ مشاہرے کی وجہ سے ماں صاب اپنے شاہانہ طرزِ زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے زیورات بیچنے پر مجبور ہوگئی تھیں۔ ماں صاب اپنی کشادہ دلی کی عادت کی وجہ سے اپنے گھر کے دروازے کھلے رکھتیں، جہاں اُن کے گھر کے 30 افراد کے علاوہ تقریباً اتنے ہی ملنے جُلنے والے ہر روز رات کا کھانا کھاتے۔ اُن کے گھر کے اخراجات تو کافی زیادہ تھے ہی لیکن مالی وسائل میں خلا کی وجہ ان کا اپنے لیے دوڑ کے گھوڑے خریدنا اور ریس کے میدان میں سٹے بازی کا شوق تھا۔

ماں صاب

ماں صاب ہر صورت باقاعدگی سے کراچی ریس کلب جاتی تھیں۔ اُن کے ساتھ شیروانیوں میں ملبوس رشتے داروں کا مجمع ہوتا اور وہ بیش قیمت ساڑھی اور کالے چشمے پہنے وی آئی پی انکلوژر میں بیٹھتیں۔ وہاں وہ بے ایمان جواریوں اور دھوکے باز گھڑسواروں کے کہنے پر بڑا بڑا سٹہ کھیلتیں۔ بڑی بڑی رقم ہارنے کے باوجود کبھی کبھی معمولی کامیابی سے بہت خوش ہوتیں اور کراچی کے رہنیوں کے ہاں مزید اپنے قیمتی زیورات رہن رکھتیں جنہوں نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ بیگم صاحب جب بھی ریسوں میں پیسہ ہارتی ہیں تو ان کی موج ہوجاتی ہے۔

دلاور منزل میں ماں صاب اپنے ملنے والوں کے ساتھ جتنی کشادہ دلی سے پیش آتی تھیں، اپنے ذاتی ملازمین کے ساتھ برتاؤ میں وہ اتنی ہی بے رحمی کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ ماں صاحب کے گھر کی دیکھ بھال اللہ رکھی نامی ایک سخت خوفناک، چھ فٹ لمبی، حبشن کے ذمے تھی۔ ملازمین کی چھوٹی موٹی کوتاہیوں پر ماں صاب کو آنے والا غصہ اس لمبی عورت کے ذریعے اتارا جاتا جو اُن غریب ملازم عورتوں کو اذیت دیتی رہتی۔

میں نے اکثر ماں صاب کو سمجھایا کہ وہ ملازمین پر ظلم کرنا چھوڑ دیں اور اُنہیں خبردار کیا کہ وہ اب شاہی ریاست میں نہیں رہتیں جہاں وہ قانون کی پہنچ سے بالاتر تھیں۔ پاکستان میں رہ کر حد سے تجاوز کرنا اُنہیں کسی مصیبت میں پھنسا سکتا ہے۔ ماں صاحب میرے انتباہ کو یہ کہہ کر نظرانداز کر دیتی تھیں کہ لڑکیاں مبالغہ کر رہی ہیں اور ضرورت سے زیادہ جذباتی ہوئے جارہی ہیں، اور اللہ رکھی تو ان کو قابو میں رکھنے کے لیے محض ہلکی پھلکی سزائیں دیتی ہے۔

29 جنوری 1952ء کو میں دلاور منزل آئی تو دیکھا کہ پولیس کے ایک دستے نے گھر کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ گھر میں سبھی افسردہ خاطر اور دم بخود تھے۔ مجھے بیاجی نے خاموشی سے بتایا کہ ملازمین میں سے ایک عورت بانو فوت ہوگئی ہے۔ پوسٹ مارٹم سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اُس کی موت بُری طرح مار پیٹ سے واقع ہوئی ہے۔ پولیس ماں صاب، اُن کے ملازمین اور گھر کے تمام افراد سے تفتیش کر رہی ہے۔

جب بیاجی مجھے اِس وحشت ناک واقعے کے متعلق بتا رہی تھیں تو ایک پولیس انسپیکٹر نیچے آیا اور مجھے پہچاننے کے بعد مجھے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا کیونکہ تفتیش میں کافی وقت درکار تھا۔ اُس نے تصدیق کی کہ بانو کی موت مار اور خوف ناک قسم کی زیادتی کے نتیجے میں واقع ہوئی ہے۔ میں نے انسپیکٹر سے ماں صاب سے چند منٹ ملاقات کی درخواست کی جسے اُس نے کچھ تامل کے بعد منظور کرلیا۔ جب ماں صاب کے کمرے میں گئی تو اُنہیں بڑی جذباتی اور گستاخانہ کیفیت میں پایا۔ وہ بڑی بے باکی سے دعویٰ کر رہی تھیں کہ قانون بیگم جونا گڑھ کو چھو بھی نہیں سکتا۔ مگر اِسی دوران انہوں نے اللہ رکھی کو یہ کہہ کر موردِ الزام ٹھہرایا کہ اِس نے بانو کو اُس کے جرم سے زیادہ سزا دی تھی۔ میں نے ماں صاب کو تسلی رکھنے اور اپنے قانونی حقوق کے سلسلے میں سیکریٹری خارجہ جناب اِکرام اللہ اور اپنے خاوند نواب صاحب سے بھی مشورہ کرنے کے لیے کہا، اگرچہ اُن کے اپنے شوہر سے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ اِس کے بعد میں بانو کے قتل کے نتائج کے خوف میں مبتلا، واپس گھر آگئی۔

اگلے دن اخبارات نے بانو کے قتل کی سرخیاں جمائیں۔ ماں صاب قتل کے جرم میں بغیر ضمانت گرفتار کرلی گئیں اور اُنہیں کراچی جیل لے جایا گیا۔ اللہ رکھی نے ماں صاب کے خلاف گواہی دے دی کہ دوپہر کے وقت ماں صاب کو پتہ چلا کہ بانو نے اُن کے باتھ روم میں پیشاب کیا ہے۔ ماں صاب کو سخت غصہ آیا، لیکن اُنہیں ریس میں جانا تھا اور دیر ہورہی تھی، لہٰذا اُنہوں نے بانو کو چند تھپڑ مارے اور اللہ رکھی کو حکم دے گئیں کہ وہ اُسے مارے اور اُس کے مخصوص حصوں میں مرچیں بھر دے تاکہ باقی سب ملازمین بھی سبق سیکھ لیں۔

خوفناک اللہ رکھی نے ماں صاب کی خواہش سے بڑھ کر اُن کے حکم کی تعمیل کی اور جب ماں صاب ریس دوڑ سے واپس لوٹیں تو بند کمرے سے بانو کی کراہنے کی آوازیں آرہی تھیں جہاں اُسے قید رکھا گیا تھا۔ کسی کی جرأت نہیں تھی کہ اُس غریب کی کوئی مدد کرتا۔ جلد ہی اُس کی دردناک چیخیں بھی دم توڑ گئیں۔ بلآخر جب دروازہ کھولا گیا تو بانو مرچکی تھی۔ بانو کو خاموشی سے دفن کردینے کی کوشش کی گئی، لیکن دلاور منزل میں سبھی سازشی اور مخبر تھے، مقامی پولیس کو بانو کو دی گئی اذیت اور بعدازاں اس کی موت کی اطلاع دے دی گئی۔ ماں صاب اور شقی القلب اللہ رکھی کا آپس میں جھگڑا کھڑا ہوگیا کیونکہ وہ جرم کی نذاکت کو سمجھ گئی تھیں اور ایک دوسرے پر الزام دھرنے لگی تھیں۔

سنسنی خیز خبریں اِس معاملے کو ہر طرف پھیلا رہی تھیں جب ماں صاب، سینئر بیگم آف جونا گڑھ، گھڑ دوڑ کی باقاعدہ شوقین، سوسائٹی کی مشہور شخصیت اور نواب جونا گڑھ کی بیوی، جنہوں نے اپنا دارالحکومت چھوڑنے سے پہلے ریاست کو پاکستان میں ضم کرنے کارنامہ انجام دیا تھا، جیل بھیج دی گئیں اور ان پر بانو کے قتل کی فردِ جرم عائد کی گئی۔

ماں صاب کی ضمانت درخواست رد کردی گئی (ڈان اخبار)۔

مجھے ان بدلتے ہوئے حالات سے خوف آنے لگا تھا، نہ صرف اِس لیے کہ میری عزیز اور خبطی دوست قتل کے الزام میں جیل پہنچ گئی تھیں، بلکہ اس لیے کہ پورا پاکستان جونا گڑھ خاندان کی عیاشی اور اخلاقی تباہی کو قریب سے دیکھ رہا تھا اور غالباً یہ سمجھ رہا تھا کہ سب شاہی خاندانوں کی طرزِ زندگی ایسی ہی ہوتی ہے۔ جوں ہی مجھے پتہ چلا کہ ماں صاب قتل کے الزام میں جیل گئی ہیں تو میں نے کوشش کی کہ کسی طرح صورتحال کو قابو میں لایا جائے۔ سب سے پہلے میں نواب جونا گڑھ کی رہائش گاہ پر گئی تو انہیں بالکل بے فکر اور لاتعلق پایا۔ میں نے ان سے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ میں سینئر بیگم کے ساتھ اُن کی ناراضگیوں سے آگاہ ہوں، لیکن اِس وقت جونا گڑھ خاندان کی عزت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ مگر اُن پر کوئی اثر نہ ہوا، لہٰذا میں اکرم اللہ صاحب کے پاس گئی۔ اُنہیں ہمدردی تھی لیکن انہوں نے کہا کہ میں قانون میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ دلاور منزل پر مایوسی چھائی ہوئی تھی۔ پولیس کو اطلاع دینے کے بارے میں ہر کوئی دوسرے پر شک کر رہا تھا۔

اِن سخت مشکل دنوں کے بعد ماں صاب کے جیل میں لمبے قیام کی حقیقت سب کی سمجھ میں آگئی، جو جونا گڑھ خاندان کو ایک اکتا دینے والا معمول درپیش ہوا۔ دوست، رشتہ دار، سٹے باز اور کاروباری شرکاء کراچی جیل میں باقاعدگی سے ماں صاب سے ملتے رہتے اور روزانہ ان کا مخصوص کھانا اُنہیں پہنچایا جاتا۔

گو میں ماں صاب کے اِس عمل سے دہل گئی تھی لیکن میری وفاداری نے مجھے باقاعدگی سے جیل میں اُن سے ملاقات کرنے پر مجبور کیا۔ یہ ایک ایسا تجربہ تھا جسے میں کبھی نہیں بھلا سکوں گی۔ ماں صاب نے چند ہفتوں ہی میں جیل کے سارے عملے کو اپنا گرویدہ کرلیا تھا۔ عملے نے اُنہیں زیادہ سے زیادہ سہولیات کے ساتھ رہائش فراہم کی۔ اُن کے کمرے نے دربار کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔ جہاں چیف جیلر اور اُس کے ساتھی اُن کی خوشامد میں لگے رہتے تھے۔ ماں صاب نے مجھے رازداری سے بتایا کہ یہ احمق جیلر میری مُٹھی میں ہے۔

ماں صاب تقریباً دس ماہ جیل میں رہیں اور اُن کے وکلاء الزامِ قتل کو بلا ارادہ قتل میں کم کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ جس میں اُن کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ ماں صاب کو سزا میں مناسب تخفیف کے بعد رہا کردیا گیا اور وہ بڑے فاتحانہ انداز سے دلاور منزل واپس گئیں۔ لیکن سابقہ طمطراق اور اصراف قصہ ماضی بن چکا تھا اور زیادہ تر زیورات بک چکے تھے۔ کراچی میں اُن کے باقی ماندہ سال غربت اور مایوسی میں گزرے۔ یہ میرے جاننے والوں میں ایک سب سے زیادہ دلچسپ اور رنگا رنگ شخصیت کا افسوس ناک انجام تھا۔

جونا گڑھ کا نقشہ

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔