پاکستان

’3 ہزار 840 ہڑتالوں کے باعث عدالتی کارروائی متاثر ہوئی‘

رواں سال30لاکھ میں سے21لاکھ مقدمات نمٹائے گئے جبکہ12لاکھ مقدمات تاحال زیرسماعت ہیں، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ منصورعلی شاہ

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ منصور علی شاہ نے عدالتوں کے حوالے سے موجود منفی تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم احکامات مسلط کررہے ہیں جبکہ خیال رہے کہ پنجاب کے ججز مشکلات کے باوجود محنت سے کام کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ رواں سال 30 لاکھ میں سے 21 لاکھ مقدمات نمٹائے گئے جبکہ 12 لاکھ مقدمات تاحال زیرسماعت ہیں۔

منصور علی شاہ نے واضح کیا کہ پنجاب میں ہائی کورٹ سمیت ضلعی عدالتوں میں گزشتہ 10 مہینوں میں مجموعی طور پر 3 ہزار 840 ریکارڈ کی گئیں اور یوں تقریباً 12 لاکھ کیسز سماعت سے محروم رہے۔

یہ پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ میں ای لائبریری کا قیام

چیف جسٹس لاہور نے کہا کہ ‘ہڑتالوں کے اسباب پر روشنی ڈالیں تو افسوس ہوتا ہے کہ کوئی ٹھوس جواز نہیں کہ ہڑتال کی جا ئے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر 3 ہزار 840 ہڑتال نہیں ہوتی تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار مقدمات کے فیصلے ہو جاتے’۔

انہوں نے واضح کیا کہ پنجاب کی آبادی 11 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔

انہوں نے بار ایسوسی ایشنز کے تحفظات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ‘بار کے عہدیداران کا خیال ہے کہ چیف جسٹس کے فیصلے صریحاً ان کی مخالفت میں کیے جاتے ہیں جبکہ حیقیقت یہ ہے کہ اگر پاکستان میں عدالتی نظام کی بہتری کے لیے بھی کوئی اقدامات اٹھائے جائیں تو اسے بھی وکیل اپنی مخالفت سمجھتے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے تنخواہ اور مراعات پبلک کردیں

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ‘کمرہ عدالت میں کیمرہ لگا کر جج اور وکیل کی کارروائی ریکارڈ کرنے میں بھی وکیلوں کو کیوں اعتراض ہے؟‘

منصور علی شاہ نے کہا کہ ‘کیا یہ ناراضگی والی بات نہیں کہ وکیل جج سے بدتمیزی کریں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘بطور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، کسی جج کا ٹرانسفر کرنا میرے انتظامی امور میں شامل ہے جبکہ جس کے تحت تبادلے روکنے کے لیے بھی مجھے پرچی بھیجی جاتی ہے اور اگر اس پر عملدرآمد نہ ہو تو ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے’۔

مزید پڑھیں: سینیٹ میں جبری گمشدگیوں کی باز گشت

ان کا کہنا تھا کہ ‘عدالتی نظام کی بہتری کے لیے اٹھائے گئے تمام اقدامات پر سخت دباؤ کا سامنا رہتا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘احتساب کا عمل بد عنوان ججز کے خلاف کارروائی سے ہوا لیکن وکلا سمجھتے ہیں کہ احتساب صرف ان کی صفوں میں ہو رہا ہے’۔