لاہور ہائیکورٹ میں قوانین کے منافی ترقیوں کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل
لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) کے اعلیٰ عہدے پر تعینات آفسر نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے عدالت میں ملازمین کی خلاف ضابطہ ترقیوں پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کر دیا۔
سینئر کورٹ اسسٹنٹ محمد اکمل خان نے عدالت عظمیٰ کے محکمہ انسانی حقوق میں درخواست پیش کی ہے۔
انہوں نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ ‘وہ لاہور ہائی کورٹ میں گزشتہ 24 برسوں سے سینئر کورٹ اسسٹنٹ تعینات ہیں اور ان کی عہدے پر ترقی 2009 سے تعطل کاشکار ہے جبکہ دیگر جونیئر افسران کو خلاف ضابطہ ترقیاں دی گئیں’۔
یہ پڑھیں: نیب کا غیرقانونی،جعلی اور خلاف ضابطہ تقرریوں کا اعتراف
محمد اکمل خان نے کہا کہ ‘ہائی کورٹ میں قوانین کے منافی تھرتیوں اور ترقیوں کے خلاف آئینی درخواست پیش کرنے اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر ان کے خلاف انتظامیہ نے انتقاماً انکوائری بیٹھا دی’۔
محمد اکمل خان نے لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے خلاف بھی پٹیشن دائر کی ہے جس میں ان کی تعیناتی کو قوائد و ضوابط کے منافی قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے خلاف 3 ہزار مقدمات
محمد اکمل خان نے الزام عائد کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ان سے دائر پٹیشن واپس لینے پر بھی زور دیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ انتظامیہ جھوٹی انکوائری میں مجھے گھسیٹ کر ذہنی اذیت میں مبتلا کررہی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا مطالبہ
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایل ایچ سی بی اے) نے لاہور ہائی کورٹ رجسٹرار خورشید انور رضوی کے فوری تبادلے کا مطالبہ کردیا۔
بار نے موقف اختیار کیا کہ رجسٹرار خورشید انور کی وجہ سے عدلیہ تضحیک کا نشانہ بنی اور ملتان ڈسٹرکٹ کورٹس کی منتقلی کے معاملے پر انہوں نے انتظامیہ کو گمراہ کیا۔
ایل ایچ سی بی اے کے سیکریٹری عامر سعید راں نے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کو تحریری درخواست میں لکھا کہ رجسٹرار خورشید انور رضوی نے عہدہ سنبھالتے ہی چیف جسٹس کو ورغلانے اور بینچ اور بار کے تعلقات کو خراب کرنے میں اپنی توانائی لگائی۔
مزید پڑھیں: نیب میں غیر قانونی تقرریاں، سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس
لاہور بار کے سیکریٹری نے کہا کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی ملتان جوڈیشل کمپلیکس کے دورے پر بھی رجسٹرار مورد الزام ٹھہرایا تھا کہ انہوں نے حقائق کو انتظامیہ سے مخفی رکھا اور وکیلوں کے مسائل پر گمراہ کن روئیہ اختیار کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ‘جب بھی بینچ اور بار کے مابین اختلافی خلا پیدا ہوتی ہے تو رجسٹرار خورشید انور کا کردار جلتی پر آگ کی مانند رہا ہے’۔
سیکریٹری نے الزام عائد کیا کہ اوکاڑہ میں کیس آئین کو معطل کرنے اور کیسز کو شور کوٹ سے جھنگ میں منتقل نہ کرنے کے پیچھے بھی خورشید انور رضوی ذمہ دار ہیں۔
سیکریٹری نے خبردار کیا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ رجسٹر کا تبادلہ نہیں کیا گیا تو لاہور بار ہڑتال کرنے پر مجبور ہو گا۔
یہ خبر 31 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی