’اپنا سوہنا پنجاب آ گیا جی‘
’اپنا سوہنا پنجاب آ گیا جی‘ڈان بلاگز موسمِ سرما کی چھٹیوں میں سیر و تفریح کے حوالے سے اپنے قارئین کے لیے مکمل ٹؤر گائیڈ پیش کررہا ہے۔ یہ سیریز کا تیسرا بلاگ ہے، گزشتہ بلاگ یہاں پڑھیں۔ اس سیریز میں قارئین تک مکمل معلومات پہنچانے کی کوشش کی جائے گی کہ سردیوں میں پاکستان کے کن کن علاقوں میں جانا زیادہ بہتر رہے گا۔
سندھ سے پنجاب جانے والی نیشنل ہائی وے، روہڑی بائی پاس بننے سے پہلے روہڑی شہر کے اندر ریلوے اسٹیشن کے برابر سے گزرتی تھی اور اس کی وجہ سے اس مختصر سے شہر میں ٹریفک کا شور ہر وقت جاری رہتا تھا۔
لیکن جب سے روہڑی کا بائی پاس بنا ہے تب سے اس اندر والی سڑک پر ٹریفک برائے نام رہ گیا ہے۔ ریلوے اسٹیشن کا چوک کہ جہاں ہر وقت بڑی رونق رہا کرتی تھی، اب یہاں صرف کسی ٹرین کی آمد کے وقت ہی کچھ گہما گہمی نظر آتی ہے۔ لینس ڈاؤن برج دیکھنے کے بعد ہم روہڑی شہر کے اندر سے گزرتے ہوئے قدیم نیشنل ہائی وے کے راستے نیشنل ہائی وے تک پہنچ سکتے ہیں۔ اب ہم صوبہ پنجاب کے قریب آچکے ہیں۔ چلیں سندھ سے باہر نکل کر جنوبی پنجاب میں قدم رکھتے ہیں جہاں سُہانا شہر صادق آباد ہمارا منتظر ہے۔
روہڑی سے صادق آباد جاتے ہوئے راستے میں پنو عاقل، گھوٹکی، میر پور ماتھیلو اور ڈہرکی کے قصبے آتے ہیں۔ بالائی سندھ کا یہ علاقہ چند اہم خصوصیات کا حامل ہے۔ ایک تو یہ کہ یہاں قدرتی گیس کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ جبکہ یہاں دو بڑے فرٹیلائزر پلانٹ بھی موجود ہیں جو پاکستان جیسے زرعی ملک کیلئے بڑے پیمانے پر کیمیائی کھاد کی پیداوار کے باعث پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ڈہرکی اور میرپور ماتھیلو میں ان کارخانوں کے بلند و بالا ہنی ٹاورز اور مشینری دورہی سے نظر آنا شروع ہوجاتی ہے اور اگر آپ اس راستے سے رات کے وقت گزر رہے ہوں تو ان فیکٹریوں کی برقی روشنیوں نے پورے علاقے کو جگمگایا ہوا ہوتا ہے۔
بلکہ رات کے وقت سفر کرتے ہوئے تو یہاں ایک اور عجیب منظر بھی دیکھنے کو ملتاہے۔ گھوٹکی سے تقریباً آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر بائیں ہاتھ پر قادرپور گیس فیلڈ ہے، جس کی چمنی سے بھڑکتا ہوا سرخ رنگ کا ایک ایسا زبردست شعلہ اٹھ رہا ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے آسمان دور دور تک نارنجی روشنی سے دمک رہا ہوتا ہے۔
روہڑی سے سندھ کے آخری قصبے اوباڑو تک تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا سفر ہے۔ کوٹ سبزل کے مقام پر ہم صوبہ سندھ سے نکل کر پنجاب میں داخل ہوجاتے ہیں، اور یہ ضلع صادق آباد ہے۔ پنجاب کی حدود میں میں داخل ہو کر مزید آگے بڑھیں تو چند کلومیٹر پر صادق آباد کا صاف ستھرا اور با رونق شہر آجاتا ہے۔
صادق آباد، بھونگ مسجد اور ہیڈ پنجند
صادق آباد میں کئی عمدہ ہوٹل ہیں جہاں قیام کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ یہاں خوردونوش کے بھی کئی عمدہ مراکز ہیں جہاں آپ ہر طرح کے لذیذ روایتی کھانے بھی کھا سکتے ہیں اور طرح طرح کی مٹھائیوں سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر صادق آباد کی مٹھائی "دودھ میسو" کا ذائقہ آپ کو ہمیشہ یاد رہے گا جو کہ سندھ کی مشہور مٹھائی ’’ماوا‘‘ ہی کی ایک شکل ہے۔
صادق آباد جو بھی آتا ہے وہ بھونگ مسجد ضرور جاتا ہے۔ اگر ہم نیشنل ہائی وے پر صادق آباد بائی پاس سے گزریں تو ایک چوراہا آتا ہے۔ صادق آباد شہر میں جانا ہو تو ہم اس چوراہے سے دائیں طرف مشرقی سمت مڑجاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس چوراہے سے بائیں طرف والی سڑک پر چل پڑیں تو تقریباً پندرہ کلو میٹر سفر کے بعد ایک مختصر سے قصبے ’’بھونگ‘‘ پہنچ جائیں گے۔ بھونگ اپنی عالیشان اور خوبصورت مسجد کی وجہ سے عالمگیر شہرت رکھتا ہے۔
بھونگ مسجد کو اس کے بہترین طرزِ تعمیر کے باعث 1986ء میں دنیا کی 213 عمارات کے مقابلے میں چھے بہترین عمارات میں شامل کیا گیا اور اس سال کا آغا خان ایوارڈ دیا گیا۔ اس مسجد کی تعمیر 1932 سے 1982 تک پچاس سال کے عرصے میں مکمل ہوئی جو کہ خود ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ بھونگ کی یہ خوبصورت مسجد رئیس غازی محمد کے اعلیٰ ذوقِ تعمیر کا شاہکار ہے۔
کہتے ہیں کہ آج جس جگہ یہ مسجد موجود ہے یہاں اس سے پہلے بھی ایک خوبصورت مسجد ہوا کرتی تھی جس کے ساتھ رئیس غازی محمد نے ایک محل تعمیر کروایا تھا۔ ایک دن انہیں محسوس ہوا کہ وہ محل اپنی شان میں اُس مسجد سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ خیال آتے ہی انہوں نے خدا سے معافی مانگی اور اُس چھوٹی مسجد کی جگہ ایک نئی اور عظیم الشان مسجد کی تعمیر کا ارادہ کر لیا۔ چنانچہ 1930ء میں محل سے تقریباً دوگنا رقبے پرنئی مسجد کی تعمیرکا آغاز ہوگیا۔
1975ء میں رئیس غازی محمد کا انتقال ہوگیا، لیکن ان کے بیٹے رئیس شبیر محمد نے تعمیراتی کام جاری رکھا۔1986ء میں بھونگ مسجد کے لیے آغا خان ایوارڈ انہوں نے ہی وصول کیا تھا۔ بھونگ مسجد میں بیک وقت دو ہزار سے زائد افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس کی تعمیر میں سونا، چاندی اور دنیا بھر سے منگایا گیا قیمتی پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ چھت پر صندل کی لکڑی کا جال ہے جسے سونے کے پتروں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ دیواروں پر اس کثرت سے نقش و نگار ہیں کہ لگتا ہے ہر طرف پھولوں کی بارش ہو رہی ہے۔ شہروں سے دور ایک خالصتاً دیہاتی ماحول میں ایسی عالیشان مسجد دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے۔
ڈان بلاگز موسمِ سرما کی چھٹیوں میں سیر و تفریح کے حوالے سے اپنے قارئین کے لیے مکمل ٹؤر گائیڈ پیش کررہا ہے۔ یہ سیریز کا تیسرا بلاگ ہے، گزشتہ بلاگ یہاں پڑھیں۔ اس سیریز میں قارئین تک مکمل معلومات پہنچانے کی کوشش کی جائے گی کہ سردیوں میں پاکستان کے کن کن علاقوں میں جانا زیادہ بہتر رہے گا۔
سندھ سے پنجاب جانے والی نیشنل ہائی وے، روہڑی بائی پاس بننے سے پہلے روہڑی شہر کے اندر ریلوے اسٹیشن کے برابر سے گزرتی تھی اور اس کی وجہ سے اس مختصر سے شہر میں ٹریفک کا شور ہر وقت جاری رہتا تھا۔
لیکن جب سے روہڑی کا بائی پاس بنا ہے تب سے اس اندر والی سڑک پر ٹریفک برائے نام رہ گیا ہے۔ ریلوے اسٹیشن کا چوک کہ جہاں ہر وقت بڑی رونق رہا کرتی تھی، اب یہاں صرف کسی ٹرین کی آمد کے وقت ہی کچھ گہما گہمی نظر آتی ہے۔ لینس ڈاؤن برج دیکھنے کے بعد ہم روہڑی شہر کے اندر سے گزرتے ہوئے قدیم نیشنل ہائی وے کے راستے نیشنل ہائی وے تک پہنچ سکتے ہیں۔ اب ہم صوبہ پنجاب کے قریب آچکے ہیں۔ چلیں سندھ سے باہر نکل کر جنوبی پنجاب میں قدم رکھتے ہیں جہاں سُہانا شہر صادق آباد ہمارا منتظر ہے۔
روہڑی سے صادق آباد جاتے ہوئے راستے میں پنو عاقل، گھوٹکی، میر پور ماتھیلو اور ڈہرکی کے قصبے آتے ہیں۔ بالائی سندھ کا یہ علاقہ چند اہم خصوصیات کا حامل ہے۔ ایک تو یہ کہ یہاں قدرتی گیس کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ جبکہ یہاں دو بڑے فرٹیلائزر پلانٹ بھی موجود ہیں جو پاکستان جیسے زرعی ملک کیلئے بڑے پیمانے پر کیمیائی کھاد کی پیداوار کے باعث پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ڈہرکی اور میرپور ماتھیلو میں ان کارخانوں کے بلند و بالا ہنی ٹاورز اور مشینری دورہی سے نظر آنا شروع ہوجاتی ہے اور اگر آپ اس راستے سے رات کے وقت گزر رہے ہوں تو ان فیکٹریوں کی برقی روشنیوں نے پورے علاقے کو جگمگایا ہوا ہوتا ہے۔
بلکہ رات کے وقت سفر کرتے ہوئے تو یہاں ایک اور عجیب منظر بھی دیکھنے کو ملتاہے۔ گھوٹکی سے تقریباً آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر بائیں ہاتھ پر قادرپور گیس فیلڈ ہے، جس کی چمنی سے بھڑکتا ہوا سرخ رنگ کا ایک ایسا زبردست شعلہ اٹھ رہا ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے آسمان دور دور تک نارنجی روشنی سے دمک رہا ہوتا ہے۔
روہڑی سے سندھ کے آخری قصبے اوباڑو تک تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا سفر ہے۔ کوٹ سبزل کے مقام پر ہم صوبہ سندھ سے نکل کر پنجاب میں داخل ہوجاتے ہیں، اور یہ ضلع صادق آباد ہے۔ پنجاب کی حدود میں میں داخل ہو کر مزید آگے بڑھیں تو چند کلومیٹر پر صادق آباد کا صاف ستھرا اور با رونق شہر آجاتا ہے۔
صادق آباد، بھونگ مسجد اور ہیڈ پنجند
صادق آباد میں کئی عمدہ ہوٹل ہیں جہاں قیام کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ یہاں خوردونوش کے بھی کئی عمدہ مراکز ہیں جہاں آپ ہر طرح کے لذیذ روایتی کھانے بھی کھا سکتے ہیں اور طرح طرح کی مٹھائیوں سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر صادق آباد کی مٹھائی "دودھ میسو" کا ذائقہ آپ کو ہمیشہ یاد رہے گا جو کہ سندھ کی مشہور مٹھائی ’’ماوا‘‘ ہی کی ایک شکل ہے۔
صادق آباد جو بھی آتا ہے وہ بھونگ مسجد ضرور جاتا ہے۔ اگر ہم نیشنل ہائی وے پر صادق آباد بائی پاس سے گزریں تو ایک چوراہا آتا ہے۔ صادق آباد شہر میں جانا ہو تو ہم اس چوراہے سے دائیں طرف مشرقی سمت مڑجاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس چوراہے سے بائیں طرف والی سڑک پر چل پڑیں تو تقریباً پندرہ کلو میٹر سفر کے بعد ایک مختصر سے قصبے ’’بھونگ‘‘ پہنچ جائیں گے۔ بھونگ اپنی عالیشان اور خوبصورت مسجد کی وجہ سے عالمگیر شہرت رکھتا ہے۔
بھونگ مسجد کو اس کے بہترین طرزِ تعمیر کے باعث 1986ء میں دنیا کی 213 عمارات کے مقابلے میں چھے بہترین عمارات میں شامل کیا گیا اور اس سال کا آغا خان ایوارڈ دیا گیا۔ اس مسجد کی تعمیر 1932 سے 1982 تک پچاس سال کے عرصے میں مکمل ہوئی جو کہ خود ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ بھونگ کی یہ خوبصورت مسجد رئیس غازی محمد کے اعلیٰ ذوقِ تعمیر کا شاہکار ہے۔
کہتے ہیں کہ آج جس جگہ یہ مسجد موجود ہے یہاں اس سے پہلے بھی ایک خوبصورت مسجد ہوا کرتی تھی جس کے ساتھ رئیس غازی محمد نے ایک محل تعمیر کروایا تھا۔ ایک دن انہیں محسوس ہوا کہ وہ محل اپنی شان میں اُس مسجد سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ خیال آتے ہی انہوں نے خدا سے معافی مانگی اور اُس چھوٹی مسجد کی جگہ ایک نئی اور عظیم الشان مسجد کی تعمیر کا ارادہ کر لیا۔ چنانچہ 1930ء میں محل سے تقریباً دوگنا رقبے پرنئی مسجد کی تعمیرکا آغاز ہوگیا۔
1975ء میں رئیس غازی محمد کا انتقال ہوگیا، لیکن ان کے بیٹے رئیس شبیر محمد نے تعمیراتی کام جاری رکھا۔1986ء میں بھونگ مسجد کے لیے آغا خان ایوارڈ انہوں نے ہی وصول کیا تھا۔ بھونگ مسجد میں بیک وقت دو ہزار سے زائد افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس کی تعمیر میں سونا، چاندی اور دنیا بھر سے منگایا گیا قیمتی پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ چھت پر صندل کی لکڑی کا جال ہے جسے سونے کے پتروں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ دیواروں پر اس کثرت سے نقش و نگار ہیں کہ لگتا ہے ہر طرف پھولوں کی بارش ہو رہی ہے۔ شہروں سے دور ایک خالصتاً دیہاتی ماحول میں ایسی عالیشان مسجد دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے۔