زندگی کا بہترین حصہ والدہ کو پدرسری قوتوں کے خلاف لڑتے دیکھنا تھا
زندگی کا بہترین حصہ والدہ کو پدرسری قوتوں کے خلاف لڑتے دیکھنا تھا: بلاول بھٹو
یہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے لیے تاریخی وقت ہے۔ یہ جمعیت علمائے اسلام اور جماعتِ اسلامی کے بعد پاکستان میں مرکزی دھارے کی تیسری سیاسی جماعت ہے جس نے 50 سال مکمل کیے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو 5 دہائیوں میں 4 مرتبہ حکومت کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد بار حزب اختلاف کا کردار ادا کر چکی ہے۔ اس نے جنرل ضیاء الحق کی بے رحم فوجی حکومت کے عتاب کا بھی سامنا کیا، جس میں اس کی پہلی حکومت کا خاتمہ اور اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی۔
پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے 1977ء سے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ 2000ء کی دہائی میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت کے میں مقدمات، گرفتاری اور قید، یہاں تک کہ جلا وطنی کا بھی سامنا کیا۔
گزشتہ 10 سال میں اس کے لاتعداد کارکن دہشت گردی کے واقعات میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جن میں سب سے بڑا واقعہ بینظیر بھٹو کی شہادت ہے، جو دو مرتبہ وزیرِ اعظم اور کسی بھی مسلم ملک کی پہلی خاتون سربراہِ حکومت بنیں۔ اس دوران کئی دفعہ اس پارٹی کی سیاسی موت کا مژدہ سنایا گیا مگر یہ بات ہر دفعہ غلط ثابت ہوئی۔
گزشتہ چند سال سے پیپلز پارٹی سندھ سے باہر تیزی سے اپنی انتخابی حمایت کھوتی جا رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ سفر ناقابلِ واپسی ہے۔ پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد آصف علی زرداری بالخصوص پنجاب میں اس کی گرتی ہوئی حمایت اور ووٹ کم ہونے پر قابو تو پانا چاہ رہے ہیں مگر انہیں اب تک محدود کامیابی ہی مل سکی ہے۔ اس دوران اس کے خاتمے کی پیشگوئیاں کرنے والے پھر سے متحرک ہوچکے ہیں۔ کیا وہ ایک بار پھر غلط ثابت ہوں گے؟ یہاں ہیرالڈ بلاول بھٹو زرداری سے ایک بے باک گفتگو میں پی پی پی کے ماضی، حال اور مستقبل سے متعلق سوالات کر رہا ہے۔
ہیرالڈ: پیپلز پارٹی کے سابقہ رہنماؤں میں سے آپ کا رول ماڈل کون ہے؟ اسلامی سوشلسٹ ذوالفقار علی بھٹو، سوشل جمہوریت پسند بینظیر بھٹو، یا وسیع تر قومی مفاہمت کے چیمپیئن آصف علی زرداری؟
بلاول: ان تینوں شخصیات نے ہی متاثر کیا ہے مگر قدرتی طور پر میری والدہ (بینظیر بھٹو) نے میری سوچ اور نظریات پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ ان میں سے ہر کسی نے اس سیاست کا مظاہرہ کیا جو اس وقت کی ضرورت تھی۔ میرے نانا (ذوالفقار علی بھٹو) نے جب دیکھا کہ اشرافیہ پاکستان کا گلا گھونٹ رہی ہیں تو وہ انتہائی بائیں بازو کا ایجنڈا لائے اور انہوں نے اشرافیہ کے خلاف وہ اقدامات کیے جو ملک نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ انہوں نے کمزور طبقات کو سیاست میں شامل کیا اور میں کمزوروں کی حمایت کے اصول کا سختی سے حامی ہوں۔
میری زندگی کا سب سے بہترین حصہ اپنی والدہ کو مختلف سطحوں پر مطلق العنانیت اور پدرسری قوتوں کے خلاف لڑتے ہوئے دیکھنا تھا، اور یہ مزاحمت میری سوچ کے کئی حصوں میں گہرائی تک سرائیت کر چکی ہے۔ اس بات کا دوسرے ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اس نے میری شخصیت کو کس طرح ڈھالا ہے۔
میرے والد نے پاکستان کی قیادت اس وقت سنبھالی جب ملک کو نفرت اور انتقام کی آگ نے لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ مفاہمت کا ان کا تصور میری والدہ کی آخری کتاب اور ان کے خیالات سے لیا گیا تھا جس میں انہوں نے خوف اور نفرت کا مقابلہ ہمت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے سے کرنے پر زور دیا تھا۔ ملک نے ایک نئے سماجی معاہدے مثلاً 18ویں ترمیم جیسی بڑی تبدیلیاں لانے کے لیے مفاہمت سے فائدہ اٹھایا اور حقیقت میں ہماری کوئی بھی پالیسی پیپلز پارٹی کی بنیادی اقدار سے منحرف نہیں ہے۔
ہیرالڈ: آپ کے نقاد کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری استحقاقی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے پاس کسی بھی چیز کو کامیابی سے چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے، انہوں نے اپنے موجودہ عہدے کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا نہیں کیا ہے، وہ اُن کڑے حالات سے نہیں گزرے جن سے اُن کی والدہ اپنے والد کی قید اور پھانسی کے دوران گزری تھیں۔ آپ کو اپنی پارٹی کی قیادت کرنے کے لیے موزوں ترین شخص کیا چیز بناتی ہے؟
بلاول: لوگوں کے پاس میری عمر اور تجربے کے بارے میں جائز سوالات پوچھنے کا حق ہے۔ میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری تقدیر اور پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلسِ عاملہ (سی ای سی) نے مجھ سے میری جوانی چھیننے کی سازش کی مگر جب میں نے دیکھا کہ میری والدہ کے قتل کے بعد پاکستان صدمے اور بحرانوں کا شکار ہے، تو میں خود اِس بات پر راضی ہوگیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ملک کی 60 فیصد آبادی میری طرح نوجوان ہے، اس لیے مجھے اگر اور کچھ نہیں تو اسٹریٹجک فائدہ ضرور حاصل ہے۔ وقت بلاشبہ میری جانب ہے۔