پاکستان

عالمی اردو کانفرنس اور ’رقص میں ہے سارا جہاں‘

پانچ روزہ عالمی کانفرنس کا آغاز 21 دسمبر کو ہوا، کانفرنس میں رقص، موسیقی اور مصوری سمیت ادب پر پروگرامات رکھے گئے

عالمی اردو کانفرنس اور ’رقص میں ہے سارا جہاں‘


ساگر سہندڑو

پاکستان کے سب سے بڑے شہراورصوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں 21 دسمبر سے 10 ویں عالمی اردو کانفرنس شروع ہوئی، جس میں اردو ادب، صحافت، آرٹس، مجسمہ سازی، رقص، شاعری، کیلیگرافی، ڈراموں اور ایوارڈز کی تقاریب منعقد کی گئیں۔

شیما کرمانی نے تحریک حقوق نسواں کی جدوجہد کو رقص میں پیش کیا

10 ویں عالمی اردو کانفرنس کا آغاز 21 دسمبر کی سہ پہر ہوا، افتتاحی تقریب میں مشتاق احمد یوسف زئی، زہرا نگاہ، ضیاء محی الدین، شمیم حنفی، مسعود اشعر، امر جلیل، کشور ناہید، رضا علی عابدی اور افتخار عارف سمیت متعدد ادیبوں و دانشوروں نے خطاب کیا۔

کانفرنس کے آغاز میں ہی اب تک کی ہونے والی 9 اردو عالمی کانفرنسز سے متعلق ایک مختصر دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔

عالمی کانفرنس کے پہلے دن کا سب سے بہترین پروگرام ’عہد مشتاق احمد یوسفی‘ رہا، جس میں ضیاء محی الدین نے مشتاق احمد یوسفی کی شاعری سے ناظرین کو محظوظ کیا۔

کانفرنس کا آغاز 21 دسمبر کو ہوا

پہلے دن کے اختتام پر قوال کی محفل کا انعقاد بھی ہوا۔

مجموعی طور پر عالمی اردو کانفرنس میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ رہی، تاہم عوام کی شرکت ابتدائی 2 دن میں خاص نہیں تھی، لیکن رقص کے پروگرام میں سب سے زیادہ لوگ دیکھے گئے۔

رکن اسمبلی سندھ مہتاب اکبر راشدی نے خواتین کے ادب میں کردار پر گفتگو کی

عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز پہلے دن کے مقابلے زیادہ رش رہا، دوسرے دن کا سب سے اہم ترین پروگرام ویسے تو ’رقص میں ہے سارا جہاں‘ رہا، جس میں نگہت چوہدری، شیما کرمانی اور مانی چاؤ کی ٹیم نے رقص کی صورت میں گزشتہ 70 سالوں کی تاریخ کو پیش کیا۔

خواتین نے ایسے موضوعات پر بھی لکھا ہے، جن پر مرد نہیں لکھ سکے، زاہدہ حنا

تاہم دوسرے دن کے دیگراہم پروگرامات میں ’ہمارا ادبی و سماجی تناظر اور خواتین کا کردار‘ بھی اہم رہا، جس میں نامور خواتین لکھاریوں نے عالمی و ملکی سطح پر ادب میں خواتین کے کردار پر گفتگو کی۔

خواتین سے متعلق اس پروگرام کی اہم ترین بات یہ تھی کہ اس میں تمام شرکاء گفتگو سمیت نظامت اور مجلس صدارت کے فرائض بھی خواتین نے ہی سرانجام دیے۔

نامور شاعرہ کشور ناہید نے متعدد پروگراموں کی صدارت کی

اس پروگرام میں رکن صوبائی اسمبلی مہتاب اکبر راشدی نے خواتین کی جانب سے لکھے گئے ادب کے سماج پر پڑنے والے اثرات پر بات کی، انہوں نے پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں خواتین کی ادبی خدمات کا مختصر جائزہ بھی لیا۔

اس پروگرام کا اہم ترین خطاب لکھاری زاہدہ حنا کا رہا، جنہوں نے کہا کہ ’عالمی سطح پر خواتین نے ایسے موضوعات کو بھی ادب کا حصہ بنایا، جن پر مرد حضرات بھی نہیں لکھتے‘۔

برطانیہ کے یارک شائر ادبی فورم کی جانب سے ایوارڈز بھی دیے گئے

زاہدہ حنا نے اپنی تقریر میں وضاحت کی کہ’خواتین نے خود لذتی سے لے کر ہم جنسی پرستی و صنفی تفریق اور خودمختاری کے موضوعات پر اتنا کھل کر لکھا ہے کہ مرد حضرات بھی ایسے موضوعات پر ایسے نہیں لکھ سکتے۔

پروگرام کی صدر کشور ناہید نے اپنے منفرد مزاحیہ انداز میں اعتراض اٹھایا کہ ادب کے سماج پر پڑنے والے اثرات کے اس پروگرام میں صرف خواتین کو ہی کیوں بٹھایا گیا؟

سقوط ڈھاکہ سے سیاست ہی نہیں آرٹ کے شعبے میں بھی نقصان ہوا، مہر افروز

ان کا کہنا تھا کہ اس پروگرام میں مرد لکھاریوں کو بھی بٹھایا جانا چاہیے تھا، تاکہ پتہ چلتا کہ مرد ادیب خواتین کو اپنے ادب میں کتنی اہمیت دیتے ہیں اور اسے کیسے کردار دینا چاہتے ہیں۔

اسی پروگرام کے آخر میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے جنرل سیکریٹری احمد شاہ نے اعلان کیا کہ ان کا ادارہ ہر سال خواتین فیسٹیول کا انعقاد کرائے گا، تاہم انہوں نے اس فیسٹیول کے لیے کشور ناہید اور امینہ سید سے مدد بھی طلب کی۔

احمد شاہ نے ہر سال آرٹس کونسل میں ویمن فیسٹیول کرانے کا اعلان بھی کیا

دوسرے روز عالمی اردو کانفرنس میں مصوری پر بھی خصوصی سیشن ’پاکستان میں مصوری کا ارتقائی سفر‘ رکھا گیا، جس میں خاتون آرٹسٹ مہر افروز نے سب سے اہم بات کہی کہ سقوط ڈھاکہ سے پاکستان کو جہاں سیاسی نقصان پہنچا، وہیں آرٹ اور مصوری کے میدان میں بھی کبھی پورا نہ ہونے والا نقصان پہنچا۔

مہر افروز کے مطابق بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہاں مصوری و پینٹگز سے متعلق رواں برس 40 ویں عالمی کانفرنس ہوئی، جس میں 120 ممالک کے مصوروں نے شرکت کی، مگر پاکستان میں آج تک مصوری سے متعلق کوئی کانفرنس منعقد نہیں کی گئی۔

شیما کرمانی نے اپنی ٹیم کے ساتھ مختلف گانوں پر رقص کیا

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ و تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں ’موہن جو دڑو، گندھارا اور ٹیکسلا‘ کی تاریخ پر محیط ہے، لیکن اس کے باوجود یہاں مصوری کے شعبے میں تاریخی کام نظر نہیں آتا۔

دوسرے روز کے اختتام پر رقص کا انعقاد بھی کیا گیا۔

مانی چاؤ نے میرہ دیدہ ورو غزل پر پرفارمنس کی

’رقص میں ہے سارا جہاں‘ سیشن میں جہاں پاکستان کی کتھک ڈانسر نگہت چوہدری نے فیض احمد فیض کے گانے ’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ پر رقص پیش کیا، وہیں انہوں نے ’ لکھنؤ کے کتھک‘ اور ’موہے رنگ دے پیا‘ پر بھی خصوصی رقص کیا۔

معروف ڈانسر مانی چاؤ نے اسی سیشن میں سندھ کے مہان کوی ’شیخ ایاز‘ کی معروف غزل’ میرے دیدہ ورو، میرے دانشورو‘ پر رقص کرکے تمام شاعروں و ادیبوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

نگہت چوہدری نے کتھک رقص کیا

ڈانس کے آخری سیشن میں شیما کرمانی اور ان کی ٹیم نے تحریک نسواں کی 40 سالہ تاریخ سمیت پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں خواتین کی خودمختاری، جمہوریت کی بقا، آزادی اور ادب کی ترویج کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو رقص کی صورت میں پیش کیا۔

شیما کرمانی کی ٹیم نے رقص کے ذریعے تحریک نسواں کی تحریک کو اجاگر کیا

عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز 23 دسمبر کو بھی اہم سیشن رکھے گئے۔

تیسرے روز کے اہم ترین سیشنز میں ’ہمارا سماج اور پاکستانی زبانیں،’ٹی وی ڈرامے کا سفر‘، ’بشریٰ انصاری کے ساتھ ایک مکالمہ‘ اور ’صحافت کے بدلتے چہرے‘ سمیت دیگر اہم سیشنز رکھے گئے۔

تیسرے روز کے اختتام پر شاعری کا سیشن منعقد ہوگا۔

نگہت چوہدری نے بتایا کہ وہ رقص میں پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں

تصاویر: بشکریہ آرٹس کونسل آف پاکستان