دنیا

امریکا مشرقِ وسطیٰ میں امن کوششوں کیلئے زحمت نہ کرے: محمود عباس

دیگرممالک سبق حاصل کریں کہ محض پیسوں کے ذریعے ملکوں کو نہیں خرید سکتے اور نہ ہی اپنے فیصلے صادر کر سکتے ہیں، فلسطینی صدر

پیرس: فلسطین کے صدر محمود عباس نے واضح کیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کی جانب سے کسی بھی طرح کی ‘امن کوشش’ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

فلسطینی صدر کا بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب پریس میں اقوامِ متحدہ کے 128 ممالک نے مشترکہ طور پر مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے یکطرفہ امریکی فیصلے کی مذمت کی۔

واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے آئندہ برس مشرق وسطیٰ میں ‘امن منصوبہ’ پیش کرنے کا امکان ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی نائب صدر مائیک پینس کو اپنا دورہ مشرق وسطیٰ منسوخ کرنا پڑا جب فلسطینی اور عرب عیسائی رہنماؤن نے امریکی نائب صدر سے ملاقات میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔

یہ پڑھیں : ’فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ ایک جیسا ہے‘

محمود عباس نے فرانس کے صدر ایمانول مائکروں کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ‘امریکا مشرق وسطیٰ میں امن کوششوں میں ثالث کا کردار کھوچکا ہے اور ہم امریکی امن کوششوں کو ہرگز قبول نہیں کریں گے’۔

اس موقع پر فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ ‘امریکا خود کو دیوار سے لگا رہا ہے اور میں ہرگز ایسی غلطی نہیں کرونگا جس سے فلسطین اسرائیل کا دشمن بن جائے’۔

رواں ماہ 21 دسمبر کو نیویارک میں 193 اراکین پر مشتمل اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بیت المقدس پر امریکی فیصلے کے خلاف مذمتی قراردار پیش کی گئی جسے 128 اراکین کی حمایت اور 9 کی مخالفت رہی جبکہ 35 ارکان غیر حاضر تھے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی فیصلے کے خلاف فلسطین میں پُرتشدد مظاہرے

امریکا کی جانب سے اس کے فیصلے پر مخالفت کرنے والے ممالک کی امداد روکنے کی دھمکی پر اقوامِ متحدہ میں فلسطین کے نمائندے ریاض منصور نے امریکی سوچ پر افسوس کا اظہار کیا۔

جنرل اسمبلی میں امریکی فیصلے کی مخالفت پر امریکی سفارتکار نیکی ہیلے نے ہنگامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ ‘واشنگٹن یہ دن کبھی نہیں بھولے گا، ووٹ سے واضح ہو گیا کہ کس طرح امریکی شہری اقوامِ متحدہ کو دیکھتے ہیں اور ہم ان ممالک کو کس طرح دیکھتے ہیں جو ہماری توہین کرتے ہیں’۔

پریس کانفرنس کے دوران محمود عباس نے کہا کہ ‘مجھے امید ہے کہ دیگر ممالک سبق حاصل کریں گے کہ محض پیسوں کے ذریعے ملکوں کو نہیں خرید سکتے اور نہ ہی اپنے فیصلے زبردستی دوسروں پر صادر کیے جاسکتے ہیں’۔

مزید پڑھیں: ’امریکا کا فیصلہ ناجائز اور غیرذمہ دارانہ عمل‘

دوسری جانب ترکی کے صدر طیب اردگان نے کہا کہ اقوامِ متحدہ میں امریکی فیصلہ ‘ناجائز’ ثابت ہو گیا اس لئے امریکا اپنے فیصلے سے دستبردار ہو جائے۔

محمود عباس نے فرانسیسی صدر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ‘ہم نے آپ پر اعتماد کا اظہار کیا، ہم آپ کے اقدامات کو عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور آپ کے اقدامات پر مکمل یقین ہے’۔

فرانسیسی صدر ایمانول مائکروں نے جواب دیا کہ ‘مشرق وسطیٰ میں پُرامن مذاکرات کے لئے ان کی کوششیں واضح اور ٹھوس ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ وہ آئندہ برس فلسطین کا دورہ کریں گے اور فرانس اور فلسطینی حکومت کے مابین تعلقات میں بہتری کے لئے رابطے بحال کریں گے۔

بعدازاں فراسیسی صدر نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں کہا ‘اب فلسطینی ریاست تنہا نہیں، اس پر کام کیا جائے تاکہ مقبوضہ بیت المقدس دونوں ریاستوں کا دارالحکومت رہے’۔


یہ خبر23 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی