نقطہ نظر

پاکستان میرا گھر ہے، اور گھر سے بہتر کرسمس کہاں منائی جاسکتی ہے؟

اس ملک سے جائیں تو زندگی کیسی؟ ویسے بھی ہمارا تعلق چاہے کسی بھی مذہب سے ہو، ملک دشمن عناصر ہم سب کے دشمن ہیں۔

پامیلا رومیل کینتھ سینٹ پال انگلش ہائی اسکول اور سینٹ پیٹرک گرلز ہائی اسکول میں بطور استاد اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہی ہیں، جبکہ آپ فری لانس لکھاری بھی ہیں۔


پاکستان میں بھلے ہی مسلمان بھائیوں کی اکثریت ہو لیکن یہ سوہنی دھرتی اپنے اندر مذہبی تکثریت کی خوبصورتی بھی رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عیدالفطر پر اگر شیر خرما چکھنے کو ملتا ہے وہیں تو دیوالی کے جلتے دیپوں کی روشنی میں لذیذ مٹھائیاں کھانے کو ملتی ہیں، جبکہ ہر سال کے آخر میں کرسمس کا کیک ہڑپ کیا جاتا ہے۔

میں اپنے ذاتی تجربے کے ذریعے آپ کو بتانے کی کوشش کروں گی کہ ہم محبِّ وطن پاکستانی مسیحی اپنے پیارے دیس میں کرسمس کس طرح مناتے ہیں؟

ہر تہوار کی طرح کرسمس بھی عزیز و اقارب اور دوست و احباب سے ملنے ملانے کا بہانہ بنتا ہے۔ مجھے بطور ایک پاکستانی مسیحی ہمیشہ سے اس ملک میں پوری مذہبی آزادی حاصل رہی ہے، جہاں میں ہر اتوار گرجا گھر میں عبادت کرنے جاتی ہوں، یونائٹڈ کرسچن کنوینشن میں شرکت کرتی ہوں، سنڈے اسکول پروگرام، سمر کیمپ، کرسمس ڈنر اور کیرل سروسز میں حصہ لیتی رہی ہوں۔

ویسے تو کرسمس کا تہوار 25 دسمبر کو منایا جاتا ہے لیکن اس پُرمسرت موقعے کی مختلف تقریبات اور گھروں کی سجاوٹ کا سلسلہ یکم دسمبر سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ دنیا کے ہر مسیحی کی خواہش ہوتی ہے کہ 25 دسمبر سے قبل ہی اس کے گھر میں روشن کرسمس ٹری موجود ہو تاکہ کرسمس تہوار کی آمد کا خوبصورت اور خوشیوں بھرا احساس گھر میں اس کرسمس ٹری کی جگمگاہٹ سے عیاں ہو۔

کرسمس کے موقعے پر جہاں گرجا گھر تو برقی قمقموں سے جگمگاتے ہی ہیں وہیں مسیحوں کی اکثریت والے علاقوں میں بھی سجاوٹ کے بھرپور انتظامات کیے جاتے ہیں اور گلیوں محلوں کو روشنیوں سے منور کرنے کے ساتھ بڑے بڑے روشن ستارے لگائے جاتے ہیں۔ گلیوں میں کرسمس کیرل گاتے نوجوان لڑکے لڑکیاں ہاتھوں میں موم بتیاں اٹھائے خوشی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔

کرسمس ٹری ہر گھر میں اس لیے بھی سجایا جاتا ہے کہ درخت زندگی و اُمید کی علامت ہے۔ کرسمس ٹری کی سجاوٹ ستاروں، برقی قمقموں، کپڑے کی بیلوں، فرشتوں کی شبیہہ، اس کے علاوہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے منسوب چرنی، بھیڑوں کی شبیہوں وغیرہ سے کی جاتی ہے۔ پورا دسمبر چرچ سرگرمیاں بھی عروج پر ہوتی ہیں، تمام مسیحی کرسمس کا آغاز گرجا گھروں میں مذہبی گیتوں اور مختلف ٹیبلوز پیش کرکے کرتے ہیں۔

حضرت عیسیٰ کی پیدائش بلاشبہ قدرت کا ایک انمول معجزہ ہے جو تمام تر عجائبات تخلیق سے افضل و اکمل ہے۔ مسیحی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے وقت مشرق سے چند مجوسیوں نے آسمان پر ایک عجیب ستارہ دیکھا اور یروشلم سے مجوسی سفر کرتے کرتے بیت اللحم آ گئے اور حضرت عیسیٰ کے پاس پہنچ کر تحائف پیش کیے، تحائف میں سونا، مر اور لبان شامل تھا۔ ان واقعات کی مناسبت سے ستارے، چرواہے، مجوسی، گفٹ، اصطبل، چرنی اور بھیڑ بکریاں کرسمس سجاوٹ کا اہم حصہ بن گئے ہیں۔

کرسمس سے جڑی ایک اور روایت سانٹا کلاز ہے، کرسمس سیزن میں ہر بچے کو سانٹا کلاز کا شدت سے انتظار ہوتا ہے۔ سینٹ نکولس 280 عیسوی میں موجودہ ترکی میں بشپ ہوا کرتے تھے، اُنہیں وراثت میں بہت سی جائیداد ملی تھی۔ سینٹ نکولس خیرات اور کرسمس سیزن میں غریب بچوں میں اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر تحائف بانٹنے کے حوالے سے کافی مشہور تھے۔ اسی روایت کو جاری رکھتے ہوئے ہر گرجا گھر میں کرسمس سے قبل کرسمس ٹری منایا جاتا ہے جہاں سانتا کلاز آکر بچوں میں تحفے تحائف تقسیم کرکے معصوم بچوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتے ہیں۔

کرسمس کے پُرمسرت موقعے کے حوالے سے سینٹ پیٹرک کیتھڈرل کے فادر ماریو روڈرکس کہتے ہیں کہ اس سال کرسمس پر ہمارا تین لفظی پیغام خوشی، امید اور امن ہے۔ تہوار میں خوشیوں کا اظہار کرسمس کیرل گا کر کیا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی کہ اپنے ساتھ غیر، غرباء اور پست طبقے کی مدد کرکے انہیں بھی خوشیوں میں برابر کا شریک کیا جائے۔

فادر ماریو کہتے ہیں کہ میرا پیغام امن ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کی تعلیمات کا مرکز ہی امن اور محبت ہے، اِس لیے ہمیں کرسمس پر اپنے ملک اور پورے عالم کے امن کے لیے دعا کرنی چاہیے۔

لیکن کچھ عرصے سے ملک میں سیکیورٹی خطرات، عدم برداشت اور انتہاپنسدی کی فضا نے ایک عجیب ماحول پیدا کردیا ہے۔

بچپن میں، میں نے کبھی بھی کسی چرچ، مسجد، امام بارگاہ کے باہر کسی پولیس اہلکار کو تعینات نہیں دیکھا تھا، چرچ کے دروازے کبھی لاک نہیں ہوا کرتے تھے، چرچ کے دروازے ہر کسی کے لیے ہر وقت کھلے رہتے تھے، آپ سے کوئی یہ نہیں پوچھتا تھا کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟ آپ کا شناختی کارڈ کہاں ہے؟

اگرچہ حکومت کی جانب سے سیکیورٹی کے غرض سے اُٹھائے جانے والے اقدامات کبھی کبھی دشواری تو پیدا کرتے ہیں لیکن یہ ضروری بھی ہیں۔

مجھے اکثر مسلم پاکستانی دوست کہتے ہیں کہ پاکستان میں حالات ٹھیک نہیں میں امیگریشن کے لیے اپلائے کیوں نہیں کرتی؟ تو میرا جواب ہوتا کہ ہے، جیسے تمہارے لیے یہ ایک پاک سرزمین ہے ویسے ہی میرے لیے ایک مقدس دھرتی ہے، ہماری جڑیں، یادیں، محبتیں اور ہماری قربانیوں کی داستانیں، سب اِسی سے تو جُڑی ہیں۔ اس ملک سے جائیں تو زندگی کیسی؟ ویسے بھی ہمارا چاہے کسی بھی مذہب سے تعلق ہو، ملک دشمن عناصر ہم سب کے دشمن ہیں، ان عناصر کا کوئی مذہب ہی نہیں، بلکہ وہ تو انسانیت کے دشمن ہیں۔

ہاں سیکیورٹی گیٹس سے بار بار گزرنے کے بعد چرچ جانے اور مسلحہ سیکیورٹی اہلکاروں کی جابجا موجودگی سے تہوار میں جھنجھلاہٹ تو ہوتی ہے لیکن عید کے دن مسلمان بھائی بھی تو سیکیورٹی گیٹس پر چیکنگ کرواکر ہی نمازِ عید ادا کرتے ہیں، درحقیقت ہمارا دشمن اور ہمارا مسئلہ سانجھا ہے۔

حضرت عیسیٰ کی پیدائش ہمیں ایک اچھے کل کی امید دلاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کرسمس کے دن ہر مسیحی کے لب پر اپنے وطن کے لیے دعائیں ہوتی ہیں کہ یہ دیس امن، بھائی چارے اور خوشیوں کا گہوارہ بنا رہے۔

آئیے اِس کرسمس میں ملک میں امن و آتشی کے لیے دعا کریں اور تمام پاکستانی یہ عہد کریں کہ ہم ملک کے تکثیری حُسن، امن اور سلامتی کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف ڈٹے رہیں گے، اور ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہیں گے۔

قوت اخوت عوام

پامیلا رومیل کینتھ

پامیلا رومیل کینتھ سینٹ پال انگلش ہائی اسکول اور سینٹ پیٹرک گرلز ہائی اسکول میں بطور استاد اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہی ہیں، جبکہ آپ فری لانس لکھاری بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔