پاکستان

انتخابی اصلاحات بل کی آئینی حیثیت سپریم کورٹ میں چیلنج

درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے انتخابی اصلاحات بل کی 13 دفعات کو غیرآئینی قرار دینے کی استدعا کردی۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات بل کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے بل کی 13 دفعات کو غیرآئینی قرار دینے کی استدعا کردی۔

اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی اور عدالت عظمیٰ سے انتخابی اصلاحات بل کی 13 دفعات کو غیرآئینی قرار دینے کی استدعا کی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ بل کے ذریعے سیاستدانوں نے الیکشن کمیشن کی خود مختاری مکمل ختم کر دی اور بل کے بعد الیکشن کمیشن کی حیثیت آقا اور غلام کی ہو چکی ہے۔

انہوں نے موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن اب اپنی مرضی سے ایک معمولی نوٹیفکیشن بھی جاری نہیں کر سکتا اور الیکشن کمیشن کو آئین سے نکال کر وزارتوں اور محکموں کے ماتحت کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 سپریم کورٹ میں چیلنج

درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ کرپشن کی سزا پر نااہلی کی مدت 5 برس کرنا بھی آئینی خلاف ورزی ہے جبکہ نااہل شخص کو سیاسی جماعت کا سربراہ بنانا آئینی روح کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم اسلامی عقائد کی خلاف ورزی ہے جبکہ سیاستدانوں نے مفادات کے لیے بار بار ترمیم کر کے آئین کا چہرہ مسخ کر دیا ہے۔

درخواست گزار نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ انتخابی اصلاحات ایکٹ کو غیرآئینی قرار دے کر مکمل طور پر کالعدم کیا جائے۔

عدالت سے استدعا کی گئی کہ آئین پاکستان کو 18ویں ترمیم کے بعد اصل شکل میں بحال کیا جائے۔

اس سے قبل 3 اکتوبر 2017 کو انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی منظوری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابی بل 2017 کے خلاف درخواستیں سماعت کیلئے منظور

درخواست قانون دان ذوالفقار بھٹہ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر کی گئی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پارلیمنٹ کا منظور کردہ بل آئین کی روح سے متصادم ہے کیونکہ اس کے تحت عدالت کی جانب سے نااہل قرار دیا گیا، شخص پارٹی صدارت کے لیے اہل قرار پائے گا۔

درخواست میں کہا گیا کہ آرٹیکل ’63 اے‘ کے تحت پارٹی صدر کسی بھی رکن پارلیمنٹ کی اہم امور پر قانون سازی کو کنٹرول کرتا ہے اور اگر اہم امور پر کوئی رکن پارلیمنٹ پارٹی صدر کی مرضی کے خلاف ووٹ دے تو اس کا کیس الیکشن کمیشن کو نااہلی کے لیے بھجوایا جاتا ہے۔

6 نومبر 2017 کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017 سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ میں الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017 کے خلاف درخواست چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے جمع کرائی تھی جسے عوامی مفاد کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر کیا گیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ پاناما فیصلے کے نتیجے میں نوازشریف کو رکن قومی اسمبلی کے عہدے کے لیے نا اہل کیا گیا تھا جبکہ پاناما کیس کے نتیجے میں ہی نوازشریف کومسلم لیگ (ن) کے عہدے سے ہٹنا پڑا تاہم نوازشریف کو مسلم لیگ (ن) میں صدر کے عہدے پر دوبارہ لانے کے لیے الیکشن ایکٹ میں خصوصی ترامیم کی گئیں۔

اس کے علاوہ 22 نومبر 2017 کو چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے انتخابی بل 2017 کو چینلج کرنے پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کو ختم کرتے ہوئے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

مزید پڑھیں: عمران خان نے الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017 سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا

اپوزیشن کی جانب سے دائر درخواست کو سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے تمام درخواستوں پر متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا اعتراض لگایا تھا۔

پی پی پی، شیخ رشید اور جمشید دستی سمیت 9 درخواست گزاروں نے انتخابی بل 2017 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس کے تحت سابق وزیراعظم نواز شریف پاناما کیس میں نااہلی کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے اہل ہوگئے تھے۔

انتخابی اصلاحات بل

واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مسلم لیگ (ن) کو پارٹی کا نیا صدر منتخب کرکے کمیشن کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کو نیا پارٹی صدر منتخب کرنے کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت نااہل شخص پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔

نواز شریف کی بطور پارٹی صدر نااہلی کے بعد حکمراں جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سینیٹر سردار یعقوب کو پارٹی کا قائم مقام صدر منتخب کیا گیا تھا۔

حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کو نواز شریف کو دوبارہ پارٹی کا صدر منتخب کرنے کے سلسلے میں ایک رکاوٹ کا سامنا تھا، جس کے لیے انتخابی اصلاحاتی بل 2017 قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، جس کے تحت نااہل شخص بھی پارٹی کا صدر منتخب ہوسکتا ہے۔

قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اس بل کو سینیٹ میں پیش کیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اعتزاز احسن نے ترمیم پیش کی کہ جو شخص اسمبلی کا رکن بننے کا اہل نہ ہو وہ پارٹی کا سربراہ بھی نہیں بن سکتا جس کے بعد بل پر ووٹنگ ہوئی۔

حکومت نے محض ایک ووٹ کے فرق سے الیکشن بل کی شق 203 میں ترمیم مسترد کرانے میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کی پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار کردی۔

مذکورہ بل کی منظوری کے بعد آرٹیکل 62 اور 63 کی وجہ سے نااہل ہونے والا شخص بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کا اہل ہوگا۔

دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف کو باآسانی مسلم لیگ (ن) کا دوبارہ صدر منتخب کرنے لیے پارٹی آئین میں بھی ترمیم کردی گئی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی جنرل کونسل نے پارٹی آئین میں ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے دفعہ 120 کو ختم کردیا، جس کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بلامقابلہ صدر منتخب ہوگئے۔