چیف جسٹس کا ملتان میں پرانی عدالتیں بحال کرنے کا حکم
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ملتان جوڈیشل کمپلیکس سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے ملتان میں پرانی عدالتوں کو 10 دن میں بحال کرنے کا حکم جاری کردیا۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ تین ماہ میں نئے جوڈیشل کمپلیکس میں تمام سہولتیں بھی فراہم کی جائیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ خورشید انور رضوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کھیتوں میں جاکر جوڈیشل کمپلیکس بنادیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اتنی عجلت میں جوڈیشل کمپلیکس کا افتتاح کرنے کی کیا ضرورت تھی جہاں وکلا کے بیٹھنے کےلیے مناسب بار روم بھی نہیں ہے، وکلا اپنے کلائنٹس کو کہاں بٹھائیں گے۔
مزید پڑھیں: ملتان: وکلا برادری کا نئے جوڈیشل کمپلیکس پر دھاوا
خیال رہے کہ چیف جسٹس نے گزشتہ روز ملتان کا دورہ کیا تھا جس کے بعد آج انہوں نے سماعت کے دوران پرانی عدالتوں کو بحال کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان کے احکامات جاری کرنے کے بعد وکلاء میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جس کے بعد گزشتہ سات روز سے دھرنے پر بیٹھے وکلاء نے جشن منانا شروع کردیا اور آپس میں مٹھائیاں بھی تقسیم کیں۔
وکلاء کا کہنا تھا کہ ہم چیف جسٹس آف پاکستان کے انتہائی شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہماری بات سنی اور ملتان کا دورہ کیا۔
واضح رہے کہ پرانے جوڈیشل کمپلیکس کی نئی عمارت میں منتقلی کے خلاف 13 دسمبر کو ملتان کے وکلاء نے احتجاج کیا تھا اور سیشن کورٹ میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی، جس کے بعد پولیس اور وکلاء کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی تاہم وکلاء عدالت میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں وکلاء گردی، اے ایس آئی پر تشدد
وکلاء کا موقف تھا کہ نیا جوڈیشل کمپلیکس تو بنا دیا گیا لیکن ان کے چیمبر نئی عمارت میں نہیں بنائے گئے، جس کے باعث وہ سخت سردی اور بارش کے دوران بے سرو سامانی کی حالت میں کھلے میدانوں میں بیٹھے رہتے ہیں۔
اس ہی حوالے سے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وکلاء کے مطالبات جائز تھے اور اپنے مطالبات منظور نہ ہونے پر وکلاء نے احتجاج کا طریقہ کار اپنایا۔
جوڈیشل کمپلیکس منتقل کرنے کی وجوہات
یاد رہے کہ پرانی کچہری ملتان کی مرکزی شاہراہ پر موجود تھی اور یہاں پارکنگ کی سہولت بھی موجود نہیں تھی جبکہ کسی بھی وقت کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آسکتا تھا۔
9 سال قبل سے یہ منصوبہ چل رہا تھا اور نئی کچہری تعمیر کردی گئی تھی لیکن وکلاء کی جانب سے اس کچہری میں منتقلی پر اعتراض کیا جارہا تھا۔
مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ میں وکلاء کی ہنگامہ آرائی، پولیس کی شیلنگ
اس حوالے سے انتظامیہ اور وکلاء کے درمیان 5 سے 6 برس تک مذاکرات چلتے رہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، جس کے بعد چند ماہ قبل انتظامیہ کی جانب سے تمام عدالتیں رات کے اندھیرے میں نئی کچہری میں منتقل کردی گئی تھی۔
انتظامیہ کی جانب سے وکلاء کو نئی کچہری میں چیمبر تو الاٹ کردیئے تھے لیکن اس جگہ چیمبر تعمیر نہیں کیے گئے تھے، جس کے باعث انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔